تحریر۔ کریم اللہ
حل صرف جماعت اسلامی کا ٹرینڈ سوشل میڈیا میں بڑا ہی مقبول ہے۔ مگر کل کے ضمنی انتخابات کے نتائج میں جماعت کی کارکردگی اور عوامی مقبولیت جاننے کے لئے انٹرنیٹ کھنگالا مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔
جماعت اسلامی خود کو پاکستان کی ایک بڑی اصلاحی و سیاسی جماعت سمجھتی ہے۔ جماعت کے طلبہ ونگ اسلامی جمیعت طلبہ کے سخت گیر کارکنان ہر ایک یونیورسٹی میں نہ صرف موجود ہوتے ہیں بلکہ وہ ان اداروں میں مورل پولیسنگ یا اخلاقی پولیس کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے کارکنوں کا خیال ہے کہ ان کو معاشرے کی اصلاح اور یہاں کی برائیوں کے خاتمے کا ٹھیکا ملا ہوا ہے۔
تب ہی یونیورسٹیوں میں مخالفین پر لاٹھی چارج کرتے، اسمبلیوں میں انسانی حقوق کے معاملے کو متنازعہ بناتے اور طاقت، وحشت اور پروپیگنڈہ کے زور پر بعض قانون سازیوں کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جماعت کے طلبہ ونگ اسلامی جمیعت طلبہ کے سخت گیر کارکنان ہر ایک یونیورسٹی میں نہ صرف موجود ہوتے ہیں بلکہ وہ ان اداروں میں مورل پولیسنگ یا اخلاقی پولیس کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔
مگر ”عوام کی جہالت” کا یہ عالم ہے کہ ہر الیکشن میں چند سو ووٹوں سے زیادہ اس عظیم ترین اصلاحی جماعت کے امیدواروں کو کوئی ووٹ نہیں ڈالتے۔
اس وقت قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے واحد نمائندے کا تعلق چترال سے ہیں۔ مگر وہ بھی اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ جمیعت کے ووٹوں سے جیت چکے ہیں۔ اور جیتنے کے بعد وہ مخالف کیمپ میں چلے گئے۔
یعنی ایم ایم اے کا قیام محض دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات جیتنے تک تھا اس کے بعد جمیعت علماء کے ووٹوں سے کامیاب ہونے والے جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی ہر میدان میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی مخالفت کرتے رہے۔
مگر ”عوام کی جہالت” کا یہ عالم ہے کہ ہر الیکشن میں چند سو ووٹوں سے زیادہ اس عظیم ترین اصلاحی جماعت کے امیدواروں کو کوئی ووٹ نہیں ڈالتے۔
دیکھا جائے تو دو ہزار دو میں بھی مولانا عبدالاکبر چترالی کی کامیابی کی وجہ جے یو آئی کے ساتھ اتحاد تھا۔
پھر دو ہزار چھ آتے آتے قاضی حسین احمد نے مولانا فضل الرحمن کے خلاف محاذ کھولا تھا۔
اس کے بعد دو ہزار پندرہ کے بلدیاتی انتخابات میں چترال سے کامیابی کے پیچھے بھی جمیعت علمائے اسلام کے ٹکٹ ہولڈرز تھے۔
حقیقت یوں ہے کہ جماعت اسلامی انتخابی سیاست سے مکمل طور پر آؤٹ ہوچکے ہیں۔
اگر آنے والے انتخابات میں ایم ایم اے نہیں بنتا ہے تو جماعت قومی اسمبلی کے اکلوتے سیٹ سے بھی محروم رہیں گے۔
کریم اللہ جامعہ پشاور کے شعبہ سیاسیات سے ماسٹر کر چکے ہیں اور عرصہ پندرہ سالوں سے بطور صحافی، کالم نگار اور وڈیو رپورٹر کام کررہے ہیں۔ وہ بام جہان کے ساتھ بطور ایڈیٹر سروس دے رہے ہیں۔