(دوسری قسط)
تحریر: عنایت ابدالی
گلگت چترال ایکسپریس وے کے اس اہم منصوبے پر کام شروع ہونے کے بعد غذر کے اکثر علاقوں کے مکین مخلتف مطالبات اُٹھائے سامنے آنے لگے ،
مارکیٹ ریٹ کے مطابق معاوضے، بنجر اراضیات کے معاوضے، آبادیوں میں کام شروع کرنے سے پہلے معاوضوں کی ادائیگی، چوڑائی کم کرنے سمیت کئی مطالبات سامنے آئے۔
جب طرح طرح کے مطالبات سر اُٹھا لیئے توحلقہ دو غذر کے منتخب نمائندہ ڈپٹی اسپیکر نذیر احمد ایڈووکیٹ سمیت انتظامیہ اور نیشل ہائی وے اتھارٹی کے ذمہ داران سے مذاکرات کرتے رہے۔
احتجاج کی دھمکیاں اور مذاکرت کا سلسلہ جاری ہے اس دوران تحصیل پھنڈر اور تحصیل گوپسں کے مختلف علاقوں میں کام کا آغاز بھی ہوا تو ایک بار پھر سے ڈپٹی اسپیکر نذیر احمد ایڈووکیٹ کی ہدایت پر مشترکہ میٹنگ کا انعقاد کیا گیا جس میں ریٹ بڑھانے، بنجر اراضیات کے معاوضے دینے سمیت دیگر معاملات پر گفتگو ہو ئی۔
گاہکوچ ریسٹ ہاؤس میں منعقدہ غذر کے مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی شرکت ہوئی، ڈپٹی اسپیکر نذیر احمد ایڈووکیٹ اور بالاورستان نیشنل فرنٹ کے قائد و رکن گلگت بلتستان اسمبلی نواز خان ناجی بھی اس موقع پر موجود تھے۔

اس اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نذیر احمد ایڈووکیٹ، نواز خان ناجی اور ڈپٹی کمشنر نے عمائدین کو یقین دہانی کرائی کہ ریٹ ریوائس ہوں گے،
بنجر اراضیات کے معاوضے مل جائیں گے اور کام کا آغاز ہوگیا ہے اس میں رکاوٹ نہ ہو۔
بنجر ارضیات کے کاغذات بنوا کر لوگ جمع کریں گے تو ان کے معاوضے بھی قانون کے مطابق ملیں گے مگر یاد رکھیں کہ مشرف حکومت کے دور میں غذر روڑ کی تعمیر میں بنجر ارضیات کے معاوضہ نہ پونیال کے کسی گاؤں میں ملا اور نہ ہی بالائی غذر کے لوگوں کو دیا گیا۔ اب اس کا فیصلہ عوام کو ہی کرنا ہے کہ وہ آپس میں گتھم گتھا ہوتے ہیں یا بنجر اراضیات کو تقسیم کرکے ان کے کاغذات بنوا کر معاوضے لیتے ہیں
اس دوران ڈپٹی کمشنر نے واضح الفاظ میں کہا کہ ریٹ ریوائس اس ماہ کر رہے ہیں جس سے معاوضوں کی ادائیگی میں وقت لگے گا لیکن موجودہ ریٹ کے مطابق ادائیگی کے لئے ہم تیار ہے مگر اس سے عوام کو بہت زیادہ نقصان ہوگا۔
بنجر ارضیات کے کاغذات بنوا کر لوگ جمع کریں گے تو ان کے معاوضے بھی قانون کے مطابق ملیں گے مگر یاد رکھیں کہ مشرف حکومت کے دور میں غذر روڑ کی تعمیر میں بنجر ارضیات کے معاوضہ نہ پونیال کے کسی گاؤں میں ملا اور نہ ہی بالائی غذر کے لوگوں کو دیا گیا تھا۔
اب اس کا فیصلہ عوام کو ہی کرنا ہے کہ وہ آپس میں گتھم گتھا ہوتے ہیں یا بنجر اراضیات کو تقسیم کرکے ان کے کاغذات بنوا کر معاوضے لیتے ہیں۔
یاد رہے کہ بنجر ارضیات یا کسی بھی تنازع کے حامل جائیداد کے معاوضے اس وقت تک نہیں ملیں گے جب تک تنازع حل نہ ہو۔
ایک اور اہم بات لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہی ایکپسریس وے چترال سائٹ سے بھی شروع ہوا ہے مگر وہاں کوئی شور شرابہ دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے حالانکہ وہ پاکستان کے مکمل آئینی شہری ہے لیکن وہ روڑ کی صورتحال سے اس حد تک تنگ آچکےہیں کہ اس پروجیکٹ کو چترال کی ترقی کےلئے سنگ میل سمجھ کر معاوضے کے بڑھانے پر سیاست کرنے سے گریزاں ہے۔
غذر ایکسپریس وے اپنے نوعیت کا ایک اہم پروجیکٹ ہے جو غذر کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔ اس پروجیکٹ کو ہم سب نے مل کر کامیاب کرنا ہے اب حکومتی نمائندوں نے بھی یہ وعدہ کر چکے ہیں کہ ریٹ ریوائس ہونگے، تقسیم و ریکارڈ شدہ بنجر ارضیات کے معاوضے مل جائیں گے، آبادیوں میں پچاس جبکہ غیر آباد جگہوں پر 100 فٹ روڑ کی چواڑئی ہوگی
دوسری جانب یہی روڑ گلگت سے شروع ہوا ہے مگر وہاں بھی کسی کو معاوضوں کی زیادہ فکر نہیں ہے مگر غذر میں ہم غذر ایکسپریس وے کو کروڈ پتی اور امیر بننے کا آخری حربہ سمجھ ایک طرف معاوضے بڑھانے پر زور دے رہے ہیں جبکہ دوسری جانب زمینیں شہروں سے آنے والوں کو فروخت کرنے کےلیے بےچین بیٹھے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اپنے دور حکومت میں سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان کو غذر ایکسپریس وے کے منصوبے کو کامیاب کرنے کے لئے مطمئن کرنے میں ناکام ہونے والے سابق وزیر سیاحت فدا خان فدا کہتے ہیں کہ یہ چین کی حکومت بنوا رہی ہے۔
بس آداب و احترام کے ساتھ فدا خان سے ملتمس ہوں کہ اتنی غیر ذمہ داری سے بات کرکے خود کو دیگر غیر سنجیدہ سیاستدانوں کے صفوں میں شامل نہ کریں کیونکہ وہ باقی بہت سارے سیاستدانون سے بہت اچھے سیاستدان ہیں۔
قارئین کرام!
غذر ایکسپریس وے اپنی نوعیت کا ایک اہم پروجیکٹ ہے جو غذر کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔
اس پروجیکٹ کو ہم سب نے مل کر کامیاب کرنا ہے اب حکومتی نمائندوں نے بھی یہ وعدہ کر چکے ہیں کہ ریٹ ریوائس ہونگے، تقسیم و ریکارڈ شدہ بنجر ارضیات کے معاوضے مل جائیں گے،
آبادیوں میں پچاس جبکہ غیر آباد جگہوں پر 100 فٹ روڑ کی چواڑئی ہوگی۔ اس سب کے باوجود اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ مجھے اپنی سیاسی دوکان ہی چمکانی ہے تو وہ چمکاتارہے عوام کو اپنے جال میں پھنسانے کی بجائے پوری کوشش دکان چمکانے پر لگائے رکھے۔
ہاں مذاکرات اور اپنے جائز مطالبات کے حق میں پر امن جدوجہد بھی ان کا حق ہے مگر صرف ذاتی انا کی خاطر اور سیاسی عداوت کی وجہ سے اس منصوبے کے خلاف عوام کو اکسائیں گے تو وہ غذر کے خیر خواہ تصور نہیں ہونگے۔
آج ہمارے ایک دوست راجہ سلیم نے فیس بک پر لکھا تھا کہ ایک چوکیداری کے لے ہم کئی کنال زمین مفت میں دینے کو تیار ہے مگر غذر کی تعمیر و ترقی کےلیے چند گز زمین معاوضے کے بدلے دینے کو بھی بربادی سمجھ رہے ہیں۔
آخر میں دعا ہے کہ غذر ایکسپریس وے غذر میں خوشحالی کا باعث بنے، اس پروجیکٹ کے بعد بےروزگاری میں کمی واقع ہو اور سیاحت کے شعبے میں نمایاں بہتری آئے۔
