رپورٹ: کریم اللہ
اپر چترال کے سیلاب متاثرین دو ماہ گزرنے کے باؤجود بھی رہائش کے لئے خیموں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔
جبکہ ابھی تک ضلعی انتظامیہ، صوبائی حکومت اور منتخب نمائندوں میں سے کسی نے بھی لوگوں کی مشکلات کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جس کے باعث اس ٹھٹھرتی سردی میں لوگوں کے لئے خیموں میں وقت گزارنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔
اس سلسلے میں چیرمین ویلج کونسل بریپ موسی نبی خان کا کہنا ہے کہ ” اگست کے مہینے میں بریپ کے دو نالوں میں آنے والی سیلابوں کی وجہ سے ساٹھ گھرانے مکمل طور پر گھر بار سے محروم ہوگئے جبکہ دو سو کے گھرانوں کو جزوی نقصان پہنچاتھا۔
ان ساٹھ گھرانوں میں سے زیادہ کے پاس دوبارہ گھر تعمیر کرنے کے لئے زمین ہی نہیں جس کی وجہ سے وہ خیموں میں ہی زندگی گزار رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اگر دس سے پندرہ دنوں کے اندر اندر ان لوگوں کے لئے گھر بنانے کے حوالے سے متبادل زمین نہیں دی گئی تو لوگ خیموں میں سردی سے مر سکتے ہیں بالخصوص بڑے بوڑھے اور بچے اس وقت بھی شدید متاثر ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض غیر سرکاری ادارے متاثرین کے لئے شیلٹر تعمیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر لوگوں کے پاس شیلٹر کے لئے زمین نہ ہونے یا پھر دوبارہ سیلاب کےخطرات کی وجہ سے وہ شیلٹر بھی نہیں بنا رہے ہیں۔
موسی نبی خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سیلاب کے فوری بعد انتظامیہ کی جانب سے متاثرین کے لئے کچھ خوراک اور ٹینٹ فراہم کئے گئے تھے اور وزیر اعلی محمود خان نے علاقے کا دورہ کرکے جلد از جلد بحالی کے وعدے کئے تھے
مگر گزشتہ دو ماہ سے نہ انتظامی عہدہ داروں کو دوبارہ کسی نے دیکھا اور نہ بحالی کے حوالے سے کوئی کام ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ دو ہزار پانچ کو بریپ میں سیلاب آنے سے اسی کے قریب گھرانے متاثر ہوئے تھے تو اس وقت کی ڈی سی کی جانب سے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں ان لوگوں کے لئے متبادل جگہ فراہم کرکے انہیں وہاں شفٹ کیا گیا تھا۔
جبکہ اس وقت دو ماہ گزرنے کے باؤجود بھی لوگ کھلی آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں۔
چیرمین ویلج کونسل بریپ کا مزید کہنا تھا کہ سڑکوں کی مکمل بحالی بھی نہ ہوئی اور نہروں کی دوبارہ بحالی و مرمت نہ ہونے کے باعث بچی کھچی فصلیں، باغات اور جنگلات تباہ ہوگئے۔
وزیر اعلی محمود خان نے بریپ میں آکر علاقے میں ایمرجنسی نافذ کرکے ہنگامی بنیادوں پر بحالی کے لئے جو اعلانات کئے تھے ان پر دو ماہ میں بھی عمل درآمد نہ ہو سکا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ کسی بڑے انسانی المیہ جنم لینے سے پہلے سیلاب متاثرین کے لئے متبادل جگہ فراہم کرکے ان کے لئے شیلٹر تعمیر کیا جائے۔
بصورت دیگر اس ٹھٹھرتی سردی میں خیموں میں رہائش پزیر لوگوں کے مرنے کے چانسز ہیں۔