Baam-e-Jahan

آتش فشاں کے مانند دہکتا جنسی گھٹن


تحریر: آصف ناجی ایڈووکیٹ


پاکستانی سماج ہو یا گلگت بلتستان کا معاشرہ جنسی گھٹن اور اس کے نتیجے میں پنپنے والے جنسی جرائم آتش فشاں کے مانند ہے جو غیر فطری غیر انسانی سوچ اور اقدار کے سبب اندر ہی اندر دہکتے رہتے ہیں اور جب پھٹتا ہے تو معاشرے کے کمزور طبقات عورتوں بچوں خواجہ سراؤں یہاں تک کہ جانوروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

بڑے بڑے سورما لکھاری مولوی حضرات اس سنگین معاشرتی ناسور پر لب کشائی کرنے سے بھاگتے ہیں مگر میں نے اپنی باغیانہ طبیعت کی وجہ سے بار بار اس مسلے پر لکھا ہے اور بولا ہے۔

جب بھی میں نے اس ایشو پر لکھا کھانے پینے کی چیزوں کو چھوڑ کر غلاظت ڈھونڈھنے والے سور کی طرح کچھ بیمار ذہنیت کے لوگوں نے اور اپنی قبیح مجرمانہ اور سہولت کارانہ کردار کی وجہ سے میرے قلم یا زبان کی زد میں آنے والے کچھ عناصر نے خوب دھول اڑا کر اس سنگین معاشرتی مسلے پر کبھی تنقیدی اور تعمیری گفتگو نہیں ہونے دی

اور ایسے عناصر کو شہ دینے کیلئے سب سے پہلے مذہبی نما کاروباری سیاسی عناصر اپنی دکانیں اور پگڑیاں بچانے کیلئے کود پڑے نتیجہ یہ نکلا کہ آے روز پاکستان کی طرح گلگت بلتستان میں بھی کہیں نہ کہیں کوئی معصوم بچہ کسی جانور کی درندگی کا شکار بن جاتا ہے۔

اس ایشو پر میں نے بچوں سے لے کر والدین اساتذہ اور سماج کے ہر طبقے کے ذہنوں کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرنے والی اور ان کا حل دینے والی تحریریں اور تقاریر کی ہیں

مگر ان پر کوئی کان دھرنے کو کوئی تیار نہیں جس کی وجہ سے آج کسی کے بھی بچے محفوظ نہیں ہیں۔ جنسی گھٹن معاشرتی ناسور ہے جو اندر کی اندر انسانوں کو جنسی بھیڑیا بنا دیتا ہے جو اپنے سے کمزورکسی بھی شخص کو کبھی شکار بنا سکتا ہے

اور ان کے سب سے آسان شکار بچے اور عورتیں بنتی ہیں۔ گلگت بلتستان میں جنسی تشدد استحصال کے شکار بچوں کا تناسب باقی پاکستان سے بہت زیادہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے