Baam-e-Jahan

یہاں پر نہ بولو ارشد


تحریر: خالد محمود ساحر


ایک تقریری مقابلے کے لیے کچھ موضوعات کی پرچی تھما کر تقریر لکھنے کو کہا گیا

مقابلے کا مزاج  اور سامعین کی نبض کا علم نہیں تھا اسلئے تمہید باندھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی

تمام تر کلمات سے مقرر کو لاتعلق دکھا کر سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے اقرار کیا کہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ آپ اس تقریر پر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونگے لیکن اس پر کوئی شبہ نہیں کہ اس ملکِ خداداد میں اسٹیج کے اوپر سے جو بھی تقریر کی جاتی ہے وہ ہنسنے کے قابل ہوتی ہے.

اس لیے مجھے یقین ہے کہ آپ اس تقریر کا مزاح سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور نکال لائیں گے۔

تقریر ہذا کے لئے کچھ موضوعات دے کر بتایا گیا کہ ان میں سے کسی ایک پر مزاحیہ تقریر کرنی ہوگی۔

ہمارے اسٹیجوں کے اوپر سے مزاحیہ تقاریر تو روز سنائی دیتی ہیں لیکن با موضوع ایک بھی نہیں ہوتی اس لیے موضوع کا انتخاب میرے لیے خاصا مشکل تھا۔

تقریر کے لیے دی گئی موضوعات کچھ یوں تھیں۔

پہلا موضوع: آج میں صرف سنانے آیا ہوں۔

اس موضوع کا انتخاب احمقانہ ثابت ہوسکتا تھا کیونکہ میں جانتا ہوں ایک سنانے پر پانچ سننا پڑتی ہیں ایسے میں یہ تقریر کم نیشنل اسمبلی کا اجلاس ذیادہ لگتا۔

دوسرا موضوع: ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام

ہماری آہوں پر ویسے بھی کوئی کان نہیں دھرتا اس لیے کیا آہ و زاری کیا کریں۔ رہی بات بدنامی کی تو ہمارے اسٹیجوں کی رونق اسی سے ہے۔

تیسرا موضوع: کمر باریک ہوگئی ہے ڈائٹنگ سے

اب یہ تو ہم سبھی کو معلوم ہے کہ یہ کمر ڈائٹنگ سے نہیں مہنگائی کی وجہ سے کمزور ہوگئی ہے اس پر کیا تقریر کی جاسکتی ہے۔

 پچھلے برس ملک میں مہنگائی بڑھنا شروع ہوئی تو کچھ سیاسی جماعتوں نے مل کر اس موضوع پر ڈھیر ساری تقاریر کیں بعد میں وہ کرسی نشین بھی ہوگئے لیکن مہنگائی میں چوتھے موضوع کے مصداق گوبھی کا پھول مجھے لگے ہے گلاب۔

اب ملک میں مہنگائی کا یہ حساب ہے کہ مارکیٹ میں گوبھی تک نایاب ہے۔

آخری موضوع بچا تھا اور وہ یہ کہ بہت بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے۔

یہ موضوع کچھ اس لئے بھی دلچسپ ہے کہ آج کل ہمارے ملک کے بڑے ایوانوں کی ممبروں سے لے کر عوامی مجمعوں تک نکلنے نکلوانے اور نکالے جانے کی باتیں ہورہی ہیں۔

 اب جو باتین ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے کرنے کی ہیں وہ ہم بھی کرنے لگ جائیں تو معلوم نہیں کب کہاں سے اٹھائے جائیں اور کہاں سے نکالے جائیں۔

اسٹیج پر چڑھ کر اس پر بات کرنا ذرا مشکل بھی ہے لیکن بقول یوسفی میں نے بھی کبھی پختہ کار مولوی یا مزاح نگار کو محض تقریر و تحریر کی پاداش میں جیل جاتے نہیں دیکھا

 اسلئے  دیواروں کو یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ باتین بھی محض تقریر کی حد تک ہیں اور یکہ ہم سفید کپڑا سر پہ باندھ کر سڑکوں پر کبھی نہیں اتریں گے۔

"ہم  لے کے رہیں گے آزادی”

"تقریر و تحریر کی آزادی”

ہاسٹل کی ڈائننگ روم میں آلو بھجیا کا پلیٹ سامنے رکھ کر اس کشمکش سے نکلنے کی کوشش کررہا تھا۔

واقعی مشتاق احمد یوسفی نے سچ کہا ہے کہ جو ملک جتنا غریب زدہ ہوگا اتنا ہی آلو اور مذہب کا چلن ذیادہ ہوگا ہمارا ملک بھی تو مذہب اور سیاست کی بھجیا ہے۔

مذہب پر بات نہیں کریں گے اس کا ٹھیکہ تو بہت سوں نے اٹھا رکھا ہے اس لئے بات کرنے کو صرف سیاست ہی بچتی ہے۔

پاکستانی سیاست سے لوگ اتنا اکتا چکے ہیں کہ اب ڈھابوں پر چپ چاپ چائے  پی جاتی ہے۔

 یہاں بھی سیاسی باتیں چھیڑیں تو عجب نہیں کہ تقریر ختم ہونے سے پہلے ہال میں لوگ ختم ہوجائیں۔

اب چونکہ تقریر شروع کی ہے تو اس کا اختتام بھی ضروری ہوگیا ہے لیکن سمجھ نہیں آرہا کہ نواب اسلم خان رئیسانی کا انداز اپناؤں یا بلاول کی طرح پوائنٹس کے عوظ اپنا سر پیش کروں۔

” سر چائیے سر دیں گے ہم”

عمران خان بھی اچھی تقریر کرلیتا ہے لیکن بقول ان کے ان کا انداز کوئی نہیں اپنا سکتا اسلیے یہ جرات بھی نہیں کی جاسکتی۔

صورتحال کچھ یوں ہے کہ میرے لئے موضوع کی طرف لوٹنا ایسا ہی دشوار ہوگیا ہے جیسے نواز شریف کے لیے پاکستان اور عمران خان کے لیے وزارت اعظمی کی طرف لوٹنا ہے۔

 میں نہیں چاہتا کہ اس صورتحال میں مجھے بھی عمران خان اور نواز شریف کی طرح آبرو کا مسئلہ پیش آئے۔

بقول چند نواز شریف پر یہ مصرعہ بلکہ پورا شعر درست بیٹھتا ہے۔

نکلنا  خلد  سے  آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن

بہت بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے

بقول دیگر وہ آبرو کی بحالی کے لیے جلد اس کوچے کی طرف لوٹنے والے ہیں جس حوالے سے ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں۔

اے ‘نواز’ ہم تو کہتے ہیں وہ کوچہ ہے خطرناک

چھپ  چھپ  کے   مگر  تیرا  جانا  نہ  ہوا  بند

آج کل عمران خان بھی ممبروں سے کھلے عام یہ اعتراف کررہا ہے

ہم بھی نواز کی طرح کوچہ اعوان سے محسن

نہ نکلتے تو کسی روز نکالے جاتے

(محسن: ملک کا وہ محسن)

رہی بات میرے یہاں سے نکلنے کی تو مجھے یقین ہے کہ آبرو کو ساتھ لے کر یہ کہتے ہوئے یہاں سے نکلوں گا کہ،

کوچہ جاناں میں بڑا احترام ہوا

بڑے پیار سے ہم بھی نکالے گئے

ایپرول کے لیے یہ تقریر پیش کی تو مقابلے کی دوڑ سے یہ کہتے ہوئے باہر کیا گیا کہ ایسی باتیں دیواروں کو ناگوار گزر سکتی ہیں۔

 دیواروں کو ناگوار گزرے نہ گزرے مجھے یہ رجیکشن بہت ناگوار گزری۔ اس ناگواری کے عالم میں ٹی وی پر یہ خبر چلی کہ ارشد شریف کو قتل کردیا گیا ہے۔

 کچھ خبروں کے مطابق  ان کا بے باکانہ اظہارِ خیال اس قتل کی وجہ بنی۔ افسردگی اور حیرانی کا یہ عالم ہوا کہ اس خبر پر یقین کرنا مشکل ہوگیا۔

ایک شخص کو کس طرح محض تقریر و تحریر کی پاداش میں قتل کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے روز خبر چلی کہ منظور پشتین کے خلاف قابل اعتراض (بقول ان کے مخالفین) تقریر کرنے پر ایف آئی آر کاٹ دیا گیا ہے۔

تقریر و تحریر پر یہ قدعن دیکھ کر ایک لمحے کو سوچ میں پڑ گیا کہ اگر میری ( مزاحیہ) تقریر کسی کو ناگوار گزرتی تو میرے ساتھ کیا کیا جاتا؟

ناپو  چاہے تولو ارشد

بولنا یہاں منظور نہیں

یہاں پر نہ بولو ارشد

خالد محمود ساحر چترال سے تعلق رکھنے والا نوجوان شاعر اور مزاح نگار ہے۔ وہ اسلام آباد کے ایک یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں۔ اپنی مادری زبان کھوار کے علاوہ اردو میں بھی شاعری کرتے رہتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں