Baam-e-Jahan

فیصل واوڈا، ٹائیگراعظم سے غدارِ اعظم تک


حیدر جاوید سید


معروف اینکر ارشد شریف کے پراسرار قتل کی گتھی سلجھ نہیں رہی۔ کینیا کے صحافی اس حوالے سے جو رپورٹس اپنے اداروں کو دے رہے ہیں ان کے مطابق ایک بین الاقوامی مالیاتی گروپ کے ساتھ ساتھ ایک پاکستانی میڈیا ہاؤس جس کے مالک کا دبئی میں وسیع کاروبار ہے، کا کردار ہر گزرنے والے دن کے ساتھ مشکوک ہوتا جارہا ہے۔

 اس ساری صورتحال کے بیچوں بیچ گزشتہ شب نو بجے سے پہلے تک عمران خان کے بااعتماد رفیق اور سابق وزیر فیصل واوڈا نے پریس کانفرنس کرکے غدار، احسان فراموش، اسٹیبلشمنٹ کا طبلچی ہونے کا ’’اعزاز‘‘ حاصل کرلیا۔

پی ٹی آئی نے واوڈا کو کور کمیٹی کے واٹس ایپ گروپ سے نکالا پھر کچھ دیر میں تحریک انصاف سندھ کے صدر علی زیدی نے اس کی رکنیت معطل کرتے ہوئے شوکاز نوٹس جاری کردیا۔

فیصل واوڈا نے اے آر وائی نیوز میں کاشف عباسی کے پروگرام میں جب فوجی بوٹ سامنے میز پر رکھا تھا تو ان کی تعریف میں زمین آسمان کے کلابے ملانے والے تھکتے نہیں تھے کہا جارہا تھا کہ یہ بوٹ نہیں سیاست کا حقیقی مقام ہے۔

اب گزشتہ شب سے وہی فیصل واوڈا ہیں وہی تحریک انصاف ہے ٹائیگر اعظم لیرو لیر ہے جو کہا لکھا جارہا ہے وہ یہاں نقل کرنا ممکن نہیں۔

ذوالفقار مرزا کی زرداری اور مصطفی کمال کی الطاف حسین کے خلاف پریس کانفرنسوں کو وقت کا انتقام قرار دینے والے کہہ رہے ہیں واوڈا غدار ہے۔

 اس نے ہمارے لانگ مارچ جہاد کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے او یہ کوشش ’’حاجی‘‘ کے ایما پر ہوئی۔

کچھ لوگ اس پریس کانفرنس کو جوابی وار قرار دے رہے ہیں یعنی عمران اور اس کے حامیوں کی جانب سے ارشد شریف کے قتل کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر لگائے جانے کا جواب۔

واوڈا کتنے بااعتماد اور سچے ہیں اس پر لمے چوڑے تبصرے کی ضرورت نہیں۔

وہ سنجیدہ اور شائستہ آدمی کبھی نہیں رہے۔ بڑھک باز، زبان دراز ہی سمجھے گئے ہمیشہ ۔

 انصاف مخلوق کے البتہ وہ گزشتہ شب سے قبل ہیرو تھے پھر زیرو ہوگئے۔ اپنی پریس کانفرنس میں اس نے دعوے پہ دعویٰ ہی کیا کہ ثبوت محفوظ ہیں۔

مجھے قتل کیا گیا تو تین گھنٹوں میں وہ بھی قتل ہوں گے جو مجھے قتل کروائیں گے۔

یہ اور اس طرح کی لایعنی باتوں سے بھری پریس کانفرنس جو ایک طبقے کے نزدیک غداری اور دوسرے کے نزدیک انکشافات ہیں۔

فقیر راحموں کہتے ہیں واوڈا کی پریس کانفرنس غداری ہے نہ انکشافات، مال جس بھاؤ خریدا گیا تھا اسی بھاؤ فروخت کرنے کی کوشش تھی بس سیلز مین بونگا نکلا۔

اسے اپنے مال کے درست ہونے پر خود یقین نہیں تھا۔ اس لئے آئیں بائیں شائیں اور ٹائیں ٹائیں فش۔

واوڈا کی پریس کانفرنس کیا اتنی اہم تھی کہ پی ٹی وی سمیت سارے چینلز لائیو نشر کریں؟

 مجھ قلم مزدور کے خیال میں لائیو نشریات غیرضروری رہیں ۔ وجہ یہی ہے کہ واوڈا کبھی کسی دستے کے سربراہ نہیں بلکہ ہمیشہ پیدل سپاہی ہی رہے۔

دولت مند خاندان سے ہیں زبان درازی اور دولت اس کے سوا اس میں خوبی کیا ہے ماسوائے یہ کے کہ گزشتہ شب سے قبل وہ عمران خان کے ڈائی ہارٹ ٹائیگر تھے۔

وہ ماحول بدل سکتے تھے اگر اپنے درجن بھر دعوؤں کو سچ ثابت کرنے کےلئے صرف ایک ثبوت میڈیا کے سامنے رکھ دیتے۔

 ماہر نفسیات سے اس کی پریس کانفرنس اور چہرے کے تاثرات کا تجزیہ کروالیجئے۔

 وہ بھی یہی کہے گا کہ جب ’’توڑ‘‘ بہت زیادہ ہو تو عادی شخص کی حالت ایسی ہی ہو جاتی ہے ۔

پی ٹی آئی کا ردعمل ضرورت سے کچھ زیادہ ہی ہوگیا۔ ثبوتوں سے محروم دعوؤں پر اس طرح ری ایکٹ کرنے کی ضرورت نہیں تھی البتہ یہ مطالبہ مناسب ہے کہ ارشد شریف کے قتل سے کچھ پہلے تک رابطے میں رہنے کے تین دعویداروں مراد سعید، سابق سینیٹر انور بیگ اور فیصل واوڈا کو کسی تاخیر کے بغیر حفاظتی تحویل میں لے لیا جانا چاہیے تاکہ ان کے دعوؤں کی صداقت پرکھنے کا بندوبست ہوسکے۔

یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ مقتول اینکر ارشد شریف کی حقیقی والدہ اور بچے موجود تھے تو جعلی ماؤں اور بیٹی کی ویڈیو بناکر پروپیگنڈے کی کیا ضرورت تھی۔

پی ٹی آئی والے اس طرح کے بودے تجربات شہباز گل کی گرفتاری کے بعد بھی کرچکے تھے اور وہ تجربے الٹ پڑگئے

 آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ جعلسازی جماعتی سطح پر نہیں ہوئی لیکن جس طرح شہباز گل والے معاملے میں پوری جماعت نے اس وقت جعلسازی کو اون کیا اسی طرح گزشتہ روز بھی پوری تحریک انصاف نہ صرف ان جعلی ویڈیوز کا دفاع فرمارہی تھی بلکہ جھوٹ کا پردہ چاک کرنے والوں کو کوسا جارہا تھا۔

عثمان بزدار کے ایک تونسوی بالک

نے جو ان کی وزارت اعلیٰ کے عرصہ میں لاہور میں موج میلہ پروگرام کا آرگنائزر رہا اَت اٹھائے رکھی۔

ادھر اسلام آباد میں ارشد شریف مرحوم کی تیسری اہلیہ جوکہ صحافی ہیں، کو جھانسی کی رانی بناکر پیش کرنے والے یوٹیوبرز نے آسمان سر پر اٹھارکھا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مقتول ارشد شریف کی زندگی میں اس کے خلاف غلاظت سے بھرے یوٹیوب پروگرام کرنے والے اب اس کے ’’وارث‘‘ بلکہ یوں کہیں فکری وارث بنے ہوئے ہیں۔

بہت ہی سطحی صورتحال ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ بوزنوں کے ادہم میں مقتول کا خون رائیگاں چلا جائے گا

 اصل منصوبہ ساز سہولت کار اور قاتل محفوظ ہوجائیں گے۔ حالانکہ ہونا نہیں چاہیے، قتل تو ہواہے۔

قاتل اور منصوبہ ساز بے نقاب ہونے چاہئیں جس جس پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں ان سب کو تحقیقات میں شامل کیا جانا ضروری ہے۔ جو جو یہ دعویٰ کررہا ہے کہ وہ قاتلوں اور سازشیوں کو جانتا ہے ان سبھی کی حفاظتی تحویل بنتی ہے تاکہ ثبوت مٹنے نہ پائیں۔

ملتان سے تعلق رکھنے والا حیدر جاوید سید پاکستان کے سینئیر تری صحافی ہے۔

وہ حالات حاضرہ کے حوالے سے قومی لیول کے اخبارات میں کالم نگاری اور تجزیہ کاری کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے