Baam-e-Jahan

روشن خیالی پر کچھ اور


تحریر: مبارک حیدر


ایک حساس دوست سلمان صدیق نے میری پوسٹ پر لکھا ہے :

"نسلِ انسانی کا وہی مستقبل ہے جو ان کے ڈی این  اے کی کوڈنگ کا بنیادی حصہ ہے اور وہ یہ کہ یہ دھوکا، لالچ، مطلب پرستی، ذاتی مفاد، خود غرضی اورغارت گری سے باز آنے والی لائف فارم نہیں۔ اس خطرناک زندگی کی قسم کی تاریخ گواہ ہے کہ اس کی خباثتوں کے اس کی  شرافتوں  سے کہیں زیادہ اثرات رہے ہیں-"

ہاں، یہ سچ ہے کہ ہزاروں برس میں خباثتوں کے اثرات بھاری رہے ہیں لیکن کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شرافتوں کا محض موجود ہونا ، خباثتوں کے اثرات سے زیادہ اہم تھا ؟

انسان کو اپنے حیوانی جسم سے نکل کر ہوش میں آتے  آتے لاکھوں برس لگے- جب اس نے بولنا ، سوچنا اور خود سے نکل کر دوسرے کا وجود پہچاننا سیکھا تو اس کے حیوانی مردانہ پہلو میں اسکی انسانی نسوانیت اگنے لگی یعنی اسکی تخریبی وحشت نے تخلیقی صلاحیت کو تھوڑی سی جگہ دے دی –  یہی تھوڑی سے جگہ پھیلتے پھیلتے کچھ صدیاں پہلے یونان ، چین اور بر صغیر میں افکار کی تحریک بن گئی ، جس کے پھل ہمارے سامنے ہیں –

انسان کو اپنے حیوانی جسم سے نکل کر ہوش میں آتے  آتے لاکھوں برس لگے- جب اس نے بولنا ، سوچنا اور خود سے نکل کر دوسرے کا وجود پہچاننا سیکھا تو اس کے حیوانی مردانہ پہلو میں اسکی انسانی نسوانیت اگنے لگی یعنی اسکی تخریبی وحشت نے تخلیقی صلاحیت کو تھوڑی سی جگہ دے دی –  یہی تھوڑی سے جگہ پھیلتے پھیلتے کچھ صدیاں پہلے یونان ، چین اور بر صغیر میں افکار کی تحریک بن گئی ، جس کے پھل ہمارے سامنے ہیں –

یعنی روشن خیالی کی تحریک، جدید سائنس، انسانی دلیل سے بنائے گئے قانون کی حکمرانی اور آئینی قومی ریاستیں جن میں اقلیت اور اکثریت کا امتیاز موجود نہیں ، اور اگر ہے تو اسے مذمت کا سامنا ہے  –

جب ہم اپنی خباست کا اقرار کرتے ہیں تو یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ ہم خود سے نکل پڑے ہیں – اضطراب اور غصہ شکست سے پیدا ہوتا ہے لیکن کوئی شکست اور کوئی فتح آخری نہیں ہوتی – کائنات اور موجودات کا سارا سفر بقا کا سفر ہے – ان گنت فتحیں اور ان گنت شکستیں اس سفر کا حصہ ہیں- لیکن اس سفر کا انت بقائے باہم کے سوا کوئی اور نہیں –  اور خباثت کی موجودہ شکلیں اجتماعی بقا کے اس سفر میں چل نہیں سکتی –

جب ہم اپنی خباست کا اقرار کرتے ہیں تو یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ ہم خود سے نکل پڑے ہیں – اضطراب اور غصہ شکست سے پیدا ہوتا ہے لیکن کوئی شکست اور کوئی فتح آخری نہیں ہوتی – کائنات اور موجودات کا سارا سفر بقا کا سفر ہے – ان گنت فتحیں اور ان گنت شکستیں اس سفر کا حصہ ہیں- لیکن اس سفر کا انت بقائے باہم کے سوا کوئی اور نہیں –  اور خباثت کی موجودہ شکلیں اجتماعی بقا کے اس سفر میں چل نہیں سکتیں –

شکستوں اور فتحوں کے ساتھ ساتھ ڈی این ا ے بھی پہلو بدلتا ہے – حیات کا کوئی ڈی این  اے آخری نہیں – جیسے جیسے انسان کے حیوانی جسم پر اس کے کمسن دماغ کی رہنمائی مضبوط ہو رہی ہے اس کی وہ خباثتیں پابند ہو رہی ہیں جن کا گلہ سلمان صدیق نے کیا ہے – ہزار سال پہلے ہم اپنے قبیلوں اور امتوں کے دائرے میں نادم ہوتے تھے – اب یہ ندامتیں عالمی ہیں – یعنی ہماری ندامتوں کا دائرہ سکڑا نہیں ، یہ پھیلا ہے۔  ندامت اصلاح کا پہلا قدم ہے – کوئی حیوان اپنی حیوانی وحشت پر نادم نہیں ہوتا- یہ ندامت صرف انسانی ڈی این اے کا نتیجہ ہے ، جو ہزاروں برس میں آہستہ لیکن ایک صدی میں تیزی سے بدل رہا ہے – حتی کہ انسانی ہاتھوں میں پلنے والے جانور بھی اپنی حیوانی جبلتوں سے نکل رہے ہیں۔ 

ابھی ہم ٹکنولاجِیکل نو عمری (Technological adolescence) کے دور میں ہیں – ذہنی ارتقا اور زوال سے ڈی این  اے میں جو تبدیلی ہوتی ہے، اسے شاید ہماری لیب نوٹ نہیں کر رہی – لیکن مثبت ارتقا کا یہ عمل جاری ہے، جسے سلمان صدیق کی اور ہم سب کی نسلیں دیکھیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے