Baam-e-Jahan

پانچویں بیوی کی رسم: وہ خاتون جس نے غلامی کی زنجیریں توڑیں اور خواتین کے لیے امید کی کرن بن گئیں

ہادیزیتو مانی کارو جب دوسرے خواتین کے ہمراہ

مصنف,کیرولائن ایموانگی اور مکتر سادو علیزے

بشکریہ: بی بی اردو


ہادیزیتو مانی کارو جب محض 12 برس کی تھیں تو انھیں ایک قبائلی سردار کو فروخت کر دیا گیا تھا۔ یوں وہ اس سردار کی واہایا یعنی پانچویں بیوی بن گئیں۔

انھوں نے جنوبی نائجر میں اپنے گھر سے بی بی سی 100 ویمن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بہت خوفناک زندگی تھی۔ مجھے حقوق حاصل نہیں تھے۔ آرام کرنے اور کھانا کھانے جیسے حقوق بھی حاصل نہیں تھے بلکہ میری اپنی زندگی پر میرا حق مجھے حاصل نہیں تھا۔

ان کے آبائی علاقے میں واہایا غلامی کی ایک عام رسم ہے جہاں امیر لوگ جنسی لذت حاصل کرنے اور گھریلو کا کرانے کے لیے نوجوان لڑکیوں کو انتہائی سستے دام میں یعنی 200 ڈالر میں خریدتے ہیں۔ اسلامی قانون کے منافی ایسی لڑکیوں کو پانچویں بیوی بنا لیا جاتا ہے۔

ہادیزیتو کو سنہ 1996 میں فروخت کیا گیا اور انھوں نے 11 سال غلامی میں گزارے۔

مگر ان کی مشکل وہیں ختم نہیں ہوئی۔ سنہ 2005 میں آزادی حاصل کرنے اور اپنی پسند کے شخص سے شادی کرنے کے بعد انھیں اسیر بنانے والے سردار نے ان پر نکاح میں ہوتے ہوئے دوسری شادی کا مقدمہ دائر کیا۔ اس مقدمے میں ہادیزیتو کو سزا سنائی گئی اور حاملہ ہونے کے باوجود انھیں جیل بھیج دیا گیا۔

اس کے ایک دہائی کے بعد ان کی سزا ختم کر دی گئی۔ نائجر میں ان کا مقدمہ بہت خاص اہمیت کا حامل بن گیا، جہاں اسے غیرقانونی قرار دینے کی کوشش کے باوجود غلامی کا تصور موجود ہے۔

ہادیزیتو اس وقت نائجر کے جنوبی علاقے تاہو کے مقام زونگو کاگاگی میں زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ دوسری خواتین کی آزادی کے لیے مہم چلا رہی ہیں تا کہ وہ اپنے حقوق کو سمجھ سکیں اور غلامی سے بچ سکیں۔

ہادیزیتو بی بی سی 100 ویمن کی فہرست میں شامل ہیں۔ اس فہرست میں ہر برس دنیا بھر سے سو ایسی خواتین کو شامل کیا جاتا ہے جن کی زندگی میں دوسروں کے لیے کوئی امید، روشنی اور امنگ پائی جاتی ہے۔

اس برس یہ فہرست اس پیشرفت کو سراہا رہی ہے جو دس برس قبل اس کے آغاز سے لے کر اب تک ممکن ہو سکی ہے۔

ہادی زیتو کا کیس ان کے ملک میں قانون میں ترمیم کی وجہ بن گیا۔

گلوبل سلیوری انڈیکس کے اعدادوشمار کے مطابق عدالتی فیصلوں اور ہادیزیتو کی طرف سے چلائی جانے والی آگاہی کی مہمات کے باوجود ابھی بھی ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد افراد نائجر میں غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

اضافی بیوی

پانچویں بیویاں خطے میں امیر لوگوں کی طرف سے غلامی کا جال ہے۔ اور صدقہ کے نام پر وہ یہ رقم انھیں تحفے میں دیتے ہیں۔ واہایا اور صدقہ ’سیکس ٹریفکنگ‘ کی ہی ایک قسم سمجھا جاتا ہے۔

یہ پانچویں بیویاں، حقیقت میں، اپنے آقا یا مالک کی لونڈیاں بن کر رہتی ہیں۔ امیر آدمی یا قبائلی سردار اسلامی قانون کے مطابق صرف چار شادیاں ہی کر سکتا ہے اور ان کے بچوں کی دیکھ بھال کر سکتا ہے۔

پانچویں بیوی یا لونڈی کو ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انھیں کھانے پینے کی اشیا سمیت دیگر بنیادی سہولیات سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ انھیں گھر کے تمام ذمہ داریاں جن میں مال مویشی پالنا اور فصلیں کاشت کرنا بھی شامل ہے جیسے کام لیے جاتے ہیں۔

ہادیزیتو نے بھی ایسی ہی زندگی گزاری ہے، جب انھیں نائجر لایا گیا اور پھر سرحد کے دوسری طرف نائیجریا لے جایا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ قبائلی سردار نے انھیں اور ان کے ساتھ سات اور لڑکیوں اور خواتین کو خریدنے کے لیے اچھی خاصی رقم ادا کی۔ تاہم ان کے مطابق قبائلی سردار نے یہ رقم ان کے یا ان کے والدین کی مرضی کے بغیر بھیجی۔

استحصال کے ایک مکروہ دھندے نے انھیں متعدد بار بھاگ کر نائجر آنے پر مجبور کیا۔ مگر انھیں ہر بار حراست میں لے لیا جاتا تھا اور پھر انھیں مزید سخت سزا کا سامنے کرنے کے لیے نائیجریا بھیج دیا جاتا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے مجھے ایسے ہی خریدا تھا جیسے وہ اپنی بکریاں خریدتے ہیں اس وجہ سے وہ اپنی من مرضی کا سلوک میرے ساتھ روا رکھتے تھے۔

انھیں ریپ کیا گیا اور پھر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی مجھ پر عائد کر دی۔

واضح رہے کہ نائجر ان ممالک میں سے ایک تھا جو دنیا میں غلامی کی تجارت کرتا ہے۔

اس کاروبار میں مغربی یورپین کے ذریعے زبردستی افریقی لوگوں کو فروخت کر کے باہر خاص طور پر امریکی ممالک کو بھیج دیا جاتا تھا۔ واہایا کی رسم کہیں زیادہ قدیم ہے، جو معاشرے میں گہری سراہیت کر چکی ہے۔

بیسوی صدی کے اوائل میں فرانسیسی نوآبادکاروں نے اس پر پابندی عائد کر دی تھی۔ مگر مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے بجائے اس اہم معاملے پر صرف نظر کیا جاتا تھا۔

سنہ 1960میں نائجر کے نئے آئین کے تحت غلامی کو کاغذی حد تک غیرقانونی قرار دیا گیا۔ مگر حقیقت میں یہ رسم جاری رہی۔

نائجر نے سنہ 2003 میں خاص اقدامات اٹھائے جب واہایا کی باقاعدہ تعریف وضع کی گئی اور اسے جرم قرار دے کر ضابطہ فوجداری میں شامل کیا گیا۔

اس ترمیم کے بعد ہادیزیتو کو سنہ 2005 میں آزادی کا پروانہ تھما دیا گیا۔ یوں انھیں اپنے دو بچوں اور واہایا رسم کی بھینٹ چڑھنے والی دو اور خواتین کے ہمراہ جیل سے رہا کر دیا گیا۔ اب انھیں آزاد شہریوں کے طور پر زندگی گزارنے کا حق مل گیا۔

جب ایک برس بعد انھوں نے اپنی مرضی سے شادی کی تو ان کے سابق سردار نے ان کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا اور مؤقف اختیار کیا کہ وہ ابھی بھی ان کی بیوی ہیں جبکہ اس کے باوجود انھوں نے کسی اور مرد کے ساتھ شادی کر لی ہے۔

شرم کی تکون

ہادیزیتو کو ایک ہی وقت پر دو مردوں سے شادی کرنے کے الزام میں جو سزا سنائی گئی تھی اس فیصلے کو سنہ 2019 میں کالعدم قرار دیا گیا۔

تاہم انھوں نے پھر بھی نائجر کی حکومت کے خلاف مغربی ممالک کی نمائندہ عدالت، کورٹ آف جسٹس آف دی اکنامک کمیونٹی آف ویسٹ افریقن سٹیٹس (ایکواس)، میں مقدمہ دائر کیا۔

اس عدالت کے ججز نے اپنے فیصلے میں یہ قرار دیا کہ نائجر نے ہادیزیتو کو غلامی میں لینے والے شخص کو سزا نہ دے کر غلامی کے خلاف اپنے ہی قوانین کو توڑا ہے اور حکومت نے ہادی کے تحفظ کے لیے اقدامات نہیں اٹھائے۔

انھیں سنہ 2009 میں 20 ہزار ڈالر کی ادائیگی کا حکم دیا جو نائجر حکومت نے انھیں ادا کر دیے۔ یہ مقدمہ لڑنے اور انصاف کے حصول کے لیے ہادی زیتو کی مدد نائجر کی ایک مقامی ’تمیدریا اینڈ برٹش این جی او اینٹی سلیوری انٹرنیشنل‘ نے کی۔ نائجر میں یہ تنظیم انسداد غلامی سے متعلق متحرک ہے۔

تمیدریا ایسوسی ایشن کے صدر علی بوزو کا کہنا ہے کہ ابھی بھی کونی، مادوہا-بوزا اور الیلا کے خطوں میں اس غلامی کا تصور پایا جاتا ہے۔ انھوں نے اس علاقے کو ’ٹرائی اینگل آف شیم‘ یعنی شرم کی تکون قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’دی ٹرائی اینگل آف شیم‘ میں متعدد پورے کے پورے دیہاتوں میں آدھے سے زیادہ آبادی واہایا یعنی غلامی کی زنجیر میں جکڑی ہوئی ہے۔

نائجر میں غلامی کے خلاف قوانین کے تحت کچھ مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ سنہ 2003 سے لے کر سنہ 2022 تک غلامی کے خلاف 114 شکایتیں موصول ہوئی جبکہ علی بوزو کا کہنا ہے کہ ان شکایات میں سے 54 پر مقدمہ چلا اور چھ مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں اور ان میں سے چار سزاؤں کو بعد میں معطل کر دیا گیا۔

مگر اس جنگ میں جیت ابھی بھی ایک خواب ہی ہے۔ نائجر کے قانون کے تحت اگر کوئی اس طرح کے غلامی سے متعلق جرم میں ملوث پایا گیا تو اسے دس سے 30 برس کی قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے مگر حالیہ دنوں میں سنائی جانے والی سزائیں دس برس سے بھی کم عرصے کی سنائی گئی ہیں۔

ماہرین اس معاملے پر قابو پانے کے لیے وسیع پیمانے پر اقدامات اٹھانے پر زور دے رہے ہیں۔ علی بوزو کی تنظیم نے یہ سفارش کی ہے کہ ایسے روایتی سردار جو اس بے ہودہ قسم کی رسم میں ملوث ہیں کو ان کو عہدوں سے برطرف کر دیا جائے۔

وہ اس غلط فہمی پھیلانے والوں کے خلاف بھی برسرپیکار ہیں جو یہ کہتے کہ یہ واہایا کی یہ رسم عین اسلام کے مطابق ہے۔

غلامی ابھی بھی ایک عالمی مسئلہ ہے۔

یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤن کے ڈین آف لا اور یونائیٹڈ نیشنز ٹرسٹ فنڈ آن کنٹیمپریری فارمز آف سلیوری کے چیئرپرسن پروفیسر ڈینوڈ چیروا کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں غلامی میں اضافہ ہوا ہے اور کووڈ-19 کی وبا اور یوکرین جنگ کی وجہ سے اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

انھوں نے ’انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن‘ اور ’انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن اینڈ واک فری‘ کی سنہ 2022 کی رپورٹ کا حوالہ دیا، جس سے پتا چلتا ہے کہ دنیا بھر میں 50 ملین لوگ غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، جن میں سے 70 لاکھ کا تعلق افریقہ سے ہے۔

پروفیسر ڈینوڈ چیروا کا کہنا ہے کہ ’غلامی کے خلاف جنگ مشکل ہو گئی ہے کیونکہ افریقی ممالک اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے باوجود اپنے انفرادی علاقوں میں اس مسئلے کے خلاف جامع قانون سازی نہیں کرتے ہیں۔‘

آج ہادیزیتو ایک سال سے لے کر 21 برس کی عمر کے سات بچوں کی ماں بن چکی ہیں، جنھوں نے غلامی سے چھٹکارا حاصل کر کے اپنی پسند کی شادی کی اور ایک خوشحال زندگی گزار رہی ہیں۔

انھوں نے اپنی بہن سمیت بہت سی خواتین کی غلامی سے نجات حاصل کرنے، آزاد اور منافعت بخش زندگی گزارنے میں مدد فراہم کی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں خاص طور پر ان خواتین کو ان کی آزادیوں کے بارے میں سکھاتی ہوں جو قانون کے ذریعے محفوظ ہیں۔ میرے ساتھ جو ہوا مجھے اس میں سے کسی بھی چیز پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ کیونکہ یہ یہ بیکار نہیں گیا، میرے اوپر گزری قیامت نے دنیا کے سامنے واہایا کو ایک مسئلے کے طور پر اجاگر کیا۔‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے