Baam-e-Jahan

کاکول سے ڈھاکہ تک: محمد حنیف کا کالم


مصنف,محمد حنیف

عہدہ,صحافی و تجزیہ کار


سابق سپہ سالار جنرل باجوہ گمنامی کا سفر شروع کرنے سے پہلے ایک بھولی بسری بات یاد کرواتے گئے۔ فرمایا کہ سانحہ مشرقی پاکستان ایک سیاسی غلطی تھی، فوجی نہیں۔ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ہمارے فوجی 90 ہزار نہیں تھے بلکہ 30 ہزار کے لگ بھگ تھے۔

آخری دنوں میں جنرل باجوہ نے یہ بھی اعتراف کیا تھا  کہ 70 سال میں سیاست میں مداخلت کرنا فوج کی غلطی تھی۔ اگر سیاست میں مداخلت فوج کی غلطی تھی اور سانحہ مشرقی پاکستان سیاسی غلطی تھی، تو غلطی کس سے ہوئی۔؟

ہم سب جانتے ہیں کہ جس کے ہاتھ میں بندوق ہو اس کو منطق کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ بندوق ہی سب سے بڑی منطق ہے۔ لیکن چونکہ ہمارے سپہ سالاروں کو اب معیشت اور سیاست کے ساتھ ساتھ تاریخ پر بھی بات کرنے کا شوق ہے تو کیا ہی اچھا ہو کہ فوجی تربیتی اداروں میں منطق کا بھی ایک بنیادی کورس شامل کر لیا جائے تاکہ ہماری پراگندہ دماغ قوم اپنے ذہن کی دیواروں سے ہی ٹکریں نہ مارتی رہے۔

یہ بھی جنرل باجوہ کی جرات تھی یا وردی کا کمال کہ وہ بنگلہ دیش کے بارے میں سب کچھ کہہ گئے کیونکہ 51 سال بعد بھی مشرقی پاکستان کے بارے میں بات کرتے بڑے بڑوں کے پر جلتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی گولڈن جوبلی پر گذشتہ سال پاکستان کی سب سے طاقتور یونیورسٹی لمز میں ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہمارے علاقے کے معروف ترین پروفیسروں اور مفکروں نے وہاں مقالات پڑھنے تھے لیکن ہمارے اداروں کو اس کانفرنس سے اتنا خوف محسوس ہوا کہ یہ کانفرنس منسوخ کرنا پڑی۔

ظاہر ہے یہ کانفرنس نہ عثمان بزدار نے منسوخ کروائی نہ لاہور کے کسی ڈپٹی کمشنر نے بلکہ انھی اداروں نے جن کا اصرار ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان ان کی غلطی نہیں تھی۔

اگر ہمارے سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ، پاکستان کی سب سے موقر یونیورسٹی کے ہال میں بیٹھ کر اس سانحے پر بات نہیں کر سکتے تو ہائی سکول میں مطالعہ پاکستان پڑھانے والا کیا بات کرے گا اور کیسے کرے گا۔

ہم تو ابھی تک یہ ہی طے نہیں کر سکے کہ 51 سال پہلے ہوا کیا تھا۔ کیا یہ سقوط ڈھاکہ تھا، سانحہ مشرقی پاکستان یا پاکستان دو لخت ہوا تھا۔ کبھی کبھی ہمیں اپنے بین بند کر کے دوسرے فریق کی بات بھی سننی چاہیے۔ جب بھی کسی بنگلہ دیشی سے بات ہوئی ہے اس نے تو ہمیشہ اس واقع کو جنگ آزادی ہی کہا ہے۔

سانحہ، سقوط جیسے الفاظ ان کے منہ سے کبھی نہیں سنے۔ ایک بزرگ نے تو چھوٹا سا لیکچر بھی دے ڈالا کہ تم پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کو آزادی کی قدر اس لیے نہیں ہے کیونکہ تمھیں آزادی گھر بیٹھے مل گئی۔ ہم تھوڑی قدر اس لیے کرتے ہیں کہ ہم نے لڑ کر لی ہے، چھین کر لی ہے۔

میں نے شاید ہی کسی بنگلہ دیشی کو یہ کہتے سنا ہوں کہ کاش پاکستان واپس ہمیں اپنا چھوٹا بھائی بنا لے۔ جس کو سنا ہے یہی کہتا ہے کہ پاکستان 71 اور اس سے پہلے والے مظالم پر معافی مانگے۔

ہم لیکن کس بات پر معافی مانگیں کیونکہ ایک تو ہم سے دھوکہ ہوا۔ بنگالی اندر سے ہندوستان سے ملے ہوئے تھے اور اگر کوئی غلطی ہوئی بھی تو ہم آج تک یہ طے نہیں کر سکے کہ غلطی سیاسی تھی یا فوجی۔

بنگلہ دیش کی طرف سے معافی کے متواتر مطالبے کے جواب میں ایک نابغے نے تو یہ کہہ دیا کہ معافی تو بنگلہ دیش والوں کو ہم سے مانگنی چاہیے، کیونکہ خود تو آزادی حاصل کر لی اور ہمیں انہی لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جن سے لڑ کر خود آزادی حاصل کی تھی۔ آزادی لینے ہی چلے تھے تو ہمیں بھی آزاد کروا دیتے۔

بنگلہ دیش بھی ہماری طرح ترقی پذیر ملک ہے لیکن آج کل یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ کئی پاکستانی سیٹھ اب اپنی فیکٹریاں بنگلہ دیش جا کر لگا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے ایک بزرگ نے ایک دفعہ بتایا تھا کہ ہمارا ملک اصل میں اپنے پیروں پر تب کھڑا ہونا شروع ہوا جب پاکستان کی ملٹری اکیڈمی کاکول کے تربیت یافتہ بنگالی جنرل ریٹائر ہو گئے۔

لیکن پاکستان کا ماضی، حال اور مستقبل تو کاکول سے ہی جڑا ہے۔ تو اگر وہاں پر یہ سبق بھی پڑھا دیا جائے کہ اگر غلطی مانو گے ہی نہیں تو دہراتے رہو گے۔ تو شاید ایک دن پاکستان بھی بنگلہ دیش بن جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے