تحریر: گمنام کوہستانی
بد قسمت دیر کے قدرتی وسائل پہلے ہی باہر کے لوگوں کے قبضے میں تھے لیکن اب قدیم تاریخی ورثہ بھی غیر چوری کرنے لگے۔
زیر نظر تصاویر میں نظر آنے والے توپوں کا تعلق ریاستی دور سے ہیں۔ بزرگوں کے بقول یہ توپین شاہ جہان نواب کے وقت بنائے گئے تھے اور انہیں بنانے والے کاریگروں کے نام کابلی استاد اور تور استاد تھے۔ تور استاد کے بارے میں فی الحال حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے کہ وہ کون تھے کہاں کے رہنے والے تھے؟
البتہ کابلی استاد کو شاہ جہان نواب نے بطور خاص کابل سے ریاستی دور کے اسلحہ فیکٹری میں اسلحہ بنانے کے لئے بلایا تھا۔ ریاستی دور کی اس فیکٹری میں ان توپوں سمیت مختلف قسم کے دوسرے چھوٹے بڑے بندوقین بنائی جاتی تھیں جو ریاستی افواجِ استعمال کرتی تھی۔
قطع نظر اس بات سے کہ دیر کی زمین چھیننے کے لئے پشتونوں نے ہزاروں معصوم داردیک لوگوں کا قتل عام کیا اور انہیں کوہستان دیر سمیت دوسرے پہاڑی دروں کے طرف دھکیلا لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دیر اس وقت آج کی طرح لاوارث نہیں تھا بلکہ اس وقت یہ ایک علاقائی سپر پاور تھا۔
یہاں بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ریاست سوات کی قیام کی وجہ ہی ریاست دیر تھا کیونکہ ریاست دیر کے حکمران دیر سمیت سوات پر بھی دعویٰ کرتے تھے اور خود کو نوابان دیر و سوات لکھتے تھے۔
سوات پر قبضہ کرنے کے لئے دیر نے کئی دہائیوں تک خونی لڑائیاں لڑی آخر تنگ آ کر سوات کے لوگوں نے ریاست سوات قائم کرنے کی کوششیں کیں۔
پہلے سید عبد الجبار شاہ حکمران بنا پھر والی سوات کے خاندان کو حکمرانی ملی یوں سوات کی ریاست وجود میں آئی۔
خیر یہ ایک لمبی اور دلچسپ داستان ہیں پھر کبھی سہی
لیکن تازہ صورتحال یہ ہے کہ ماضی کا علاقائی سپر پاور دیر آج اتنا لاوارث ہیں کہ ایک معمولی ڈی سی بغیر کسی سرکاری حکم کے صرف وزیر اعلیٰ کے کہنے پر ریاستی دور کے ان دو تاریخی توپوں کو دیر سے سوات وزیر اعلیٰ کے گھر منتقل کر دیا اور کسی کو کانوں کان پتہ بھی نہیں چلا۔
پورے دیر میں ایک بھی ایسا بندہ نہیں ملا جو ڈی سی سے پوچھتے کہ آپ کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ آپ ہماری قدیم تاریخی ورثے کو وزیر اعلیٰ کو مفت میں پیش کریں؟
دیر آپ کے باپ دادا کی جاگیر ہے یا آپ نواب دیر ہے کہ دیر کے قدیم تاریخی ورثے کو یوں منہ اٹھائے کسی کے بھی حوالے کرو ؟
دیر کے لوگوں یہ صرف توپوں کا مسلئہ نہیں ہے یہ دیر کی غیرت کا مسئلہ ہے۔ آج اگر آپ نے ان توپوں کا نہیں پوچھا تو کل کو یہ لوگ دیر کے قدیم تاریخی و ثقافتی ورثے کو سمیٹ کر اونے پونے داموں بیچیں گے یا تحفے میں دیں گے۔
یہ دیر کے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھ کر ڈی سی اور ڈی پی او کو گریبان سے پکڑ پوچھے کہ آپ کے ہوتے ہوئے اتنی بڑی چوری کیسی ہوئی ؟.
اگر آپ لوگوں نے وزیر اعلیٰ کو بطور تحفے یہ توپیں دی ہیں تو آپ کون ہوتے ہیں ہمارے قدیم تاریخی ورثے کو وزیر اعلیٰ کو دینے والے اور وزیر اعلیٰ کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ ریاستی دور کے تاریخی ورثے کو اپنے گھر کے زیبائش کے لئے استعمال کرے؟.
توپوں کی چوری کو ہنسی مذاق میں اڑانے والے دیروجیوں یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے بلکہ پورے دیر کے لوگوں کے منہ پر تمانچہ ہے۔ آپ اتنے لاوارث لوگ ہو کہ آپ کے قدیم تاریخی ورثے کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے کوئی بھی اٹھا کر اپنے گھر لے کہ جا سکتا ہے۔