تحریر ۔ فرمان بیگ
عطا آباد سانحہ کو آج بارہ سال مکمل ہوگئے گوکہ وادی ہنزہ قدرتی آفات کےاثرات سے نکل چکا ہیں مگر انسانوں کی بنائی ہوئی تباہی و بربادی کا سلسلہ کسی اور شکل میں جاری ہے۔
عطاء آباد سانحہ کے متاثرین بحالی کیمپوں میں اب بھی مسائل و مشکلات سے دوچار زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ان کی مسائل و مشکلات اب بھی اپنی جگہ موجود ہونے کے ساتھ شاید مزید پیچیدہ ہو گئی ہیں۔
لینڈ سلائیڈنگ سے تقریبا 1600 سے زائد افراد متاثر ہوئے تھے عطاء آباد گاؤں کے تینتالیس مکانات مکمل طور پر تباہ اور ملبہ کی ایک بڑی مقدار دریائے ہنزہ میں گرنے سے شاہراہ قراقرم بند ہونے کی وجہ سے گوجال ہنزہ کے تقریباً 25,000 نفوس پر مشتمل آبادی کا ملک کے دیگر حصوں سے رابطہ منقطع ہوا تھا ۔
اس سانحہ نے وادی ہنزہ کے نظام زندگی کو ایک طرح سے بدل کے رکھ دیاہے۔
آج سے بارہ سال قبل عطاء آباد سانحہ پیش آیا تھا لینڈ سلائیڈنگ نے آئین آباد شݰکٹ گلمت کےپورےگاؤں کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا تھا۔
گزشتہ بارہ سالوں سے مقامی افراد مستقل غیر یقینی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جھیل نے گاؤں کے گاوں کو نگل لیا ہے نیچے دبے ہزاروں کنال زمینوں اور درختوں سے مقامی لوگ محروم ہو چکے ہیں گلمت اور گرد نواح میں آئے روز زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے جارہے ہیں۔
آج عطاء آباد جھیل سیاحتی نقطہ نگاہ سے ایک صاف نیلے رنگوں کا شاندار جھیل ہے جنھیں سیاح دیکھ ایسا محسوس کرتے ہیں کہ جیسے کسی شاعر کے خواب میں جی رہے ہو مگر ان کو اس بات کا بالکل بھی ادراک نہیں کہ اس جھیل نے کتنے گھرانوں کے حسین خوابوں اور ارمانوں کو اپنے اندر قید کر رکھا ہیں۔
بظاہر قدرتی آفت سے پیدا صورت حال کو بے حس حکمرانوں، پالیسی سازوں اور باآثر حلقوں کی جانب سے انسانی تباہی و بربادی میں تبدیل کرنے کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں ۔
اپنے جائز حقوق مانگنے کی پاداش میں باپ بیٹے کا پولیس فورس کے ہاتھوں قتل مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بجائے بے گناہ سیاسی کارکنوں اور ہنزہ کے نوجوانوں بالخصوص بابا جان اور ان کے ساتھیوں کو غیر قانونی غیر اخلاقی اور بلا جواز قید وبند کی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا ۔
کروڑوں روپے مالیت کی زرعی اراضی باغات اور مکانات جھیل کی نظر ہوگئے حکومتی سطح پر ان نقصانات کی ادائیگی کےوعدوں کے باوجود متاثرین کو تا حال کسی بھی قسم کی کمپنسیشن نہ کرنا حکمرانوں کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یو ایس ایڈ کی طرف سے عطا آباد کے آفت زدہ تاجر برادری کے کاروبار کی بحالی کے لئےلاکھوں ڈالر فنڈ کی منظوری کے باوجود بد انتظامی کا شکار ہونے جیسے صورت حال سے متاثرین عطاد آباد دو چار ہیں۔
سانحہ عطاء آباد نے مقامی لوگوں کے ہنستے بستے آبادی کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا دوسری طرف سرکاری سطح پر سرمایہ کاری کے نام پر سرمایہ داروں نے لوگوں کی زمینوں کو اونے پونے داموں خرید کر خطے کے معاشی وسائل پر قبضہ جمایا جارہا ہیں بااثر حلقوں کی جانب سے ماحولیاتی و اراضیاتی خطرناک زون میں واقع ہونے کے باوجود تعمیراتی قوانین کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بے ہنگم کنکریٹ کی عمارتوں کی تعمیرات میں مصروف ہیں۔
انتظامیہ کی جانب سے قوانین پر عمل در آمد کی عدم دل چسپی کے باعث ماحولیاتی مسائل سر اٹھانے لگی ہیں۔
ہوٹلوں کی تعمیرات سے کنکریٹ کا ایک جنگل بنتا جارہا ہیں، نکاس آب کا نظام نہ ہونے سے جھیل آلودگی کا شکار ہورہی ہے بے ہنگم سیاحت سے اردگرد کچرا کنڈی بنتا جارہا ہیں۔
بڑے بڑے سرمایہ کاروں کے لئے تعمیرات میں کھلی چھوٹ دے دی گئی ہیں جب کہ چھوٹے اور مقامی افراد کے معاشی سرگرمیوں پر انتظامیہ کی جانب سے بسا اوقات قدغن لگائی جاتی ہے۔
ضلع ہنزہ کے مکینوں کے لیے بجلی کی عدم دستیابی کے باوجود لیکسس ہوٹل جیسے اجارہ دار سرمایہ کاروں کی کاروبار برقی قمقوموں سے جوبیس گھنٹے جگمگاتا رہتا ہیں ۔
ہنزہ بنیادی ضرویات زندگی کے وسائل سے محروم ہونے کے باوجود بھی لوگ ٹس سے مس نہیں ہوتے اور نہ سرکار و منتخب نمائندگاں ان مسائل کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان کے شمالی خطے میں ارضیاتی اور ہائیڈرو لوجیکل تغیرات کی وجہ سے زلزلے، گلیشئرز کا پھٹنا، لینڈ سلائیڈنگ جیسے خطرات کے امکانات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ 2002 میں استور کے زلزلے 2005 میں کشمیر کا قیامت خیز زلزلہ، رندو کے حالیہ زلزلوں کے جھٹکے اور 2010 کو عطا آباد میں لینڈ سلائیڈنگ کا واقعہ جس سے دریائے ہنزہ کا بہاؤ رکنے کی وجہ سے بننے والے جھیل سے جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔
وہی آج کل سب ڈویژن گوجال کے صدر مقام گلمت میں آئے روز زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے جاتے ییں۔ ماہرین ارضیات نے عطاء آباد جھیل کو ایک ڈیزاسٹر رسک قرار دینے کے ساتھ مستقبل کے سانحات سے بچنے کے لئے جھیل کے پانی کو نکالنے یا ایک حد سے کم مقدر پر رکھنے کی تجویز دی ہیں مگر سرمایہ داریت کی حرص اور لالچ نے فیصلہ سازوں کو اندھا کر کے رکھا ہوا ہیں جو آنے والے کل کے لئے کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہیں۔