Baam-e-Jahan

سوست میں لگی آگ اور بےبس و لاچار عوام


تحریر ۔ فرمان بیگ


گزشتہ روز پاک چین راہداری یعنی  سی پیک روٹ کے داخلی مقام سوست گوجال ہنزہ میں شاٹ سرکٹ سے لگنے والی آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے لحموں میں آدھا درجن کے قریب دکانوں کو لپٹ میں لے لیا۔

 بروقت  مقامی لوگوں  اور دوکانداروں کی کارروائی نے آگ کو مذید پھیلنے اور زیادہ  نقصانات سے بچا تو لیا مگر حکومتی بے حسی اور انتظامیہ کے کردار کو عیاں کردیا۔

سوست قصبہ بین الاقوامی سرحدی گزر گاہ ہونے کی بنا پر  پاک چین سرحدی تجارت کا مرکز ہیں جہاں وفاقی  اور صوبائی اداروں کے دفاتر، سلک روٹ ڈرائی پورٹ کے علاوہ ایک مصروف تجارتی اور سیاحتی مرکز بھی ہیں، مگر بدقسمتی سے  سرکاری سطح پر اس طرح کے حادثات کے خطرات کو کم کرنے کے لئے  احتیاطی تدابر اور  اقدامات سرے سے موجود ہی نہیں۔

   سلک روٹ ڈرائی پورٹ سوست سالانہ ایک خطیر رقم ٹیکس کی مد میں پاکستانی خزانے میں جمع کرنے کے باوجود نہ صرف سوست قصبہ بلکہ پوار ضلع ہنزہ بنیادی ضروریات  مثلا بجلی، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی، ڈاکٹرز کی کمی، ہسپتال اور تعلیمی اداروں کی ناگفتہ بہہ  صورت حال سے دوچار ہیں۔

 این ایل سی سلک روٹ ڈرائی پورٹ  کے پاس پانی کا باوزر موجود ہونے کے باوجود عام عوام کے استعمال کے لئے شجر ممنوعہ ہیں لاچار اور بےبس عوام نے اپنے بل بوتے پر آگ پر قابو توپا لیا لیکن اس آگ نے ارباب اختیار کے لئے عوام ہنزہ کے تیئن رکھے گئے رویے پر کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔

دوسری جانب اگر غور کریں تو یہی سوست ہنزہ  پاکستان کے لئے معاشی اقتصادی اور اسٹرٹیجک اہمیت کے حوالے سے ریڑھ کے ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں چین سے درآمدی اشیاء پر محصولات کی مد میں اربوں روپے ٹیکس کی صورتوں میں پاکستانی خزانے میں سالانہ جمع ہو رہا ہیں۔

 چین اور  پاکستان کے مابین سالانہ تجارتی ہجم 2002 میں 2 بلین ڈالر سے   بڑھ کر 6.9 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ مستقبل میں اس کا ہدف 15 بلین ڈالر رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ  ٹیکسوں کی مد میں پاکستانی خزانے میں جمع ہونے والے محصولات کو دیکھا جائے تو پاکستان کے تمام ڈرائی پورٹ سے سب سے زیادہ ٹیکس سوست ڈرائی پورٹ جمع کر رہا ہیں۔

دستیاب ریکارڈکےمطابق 2016/17 کے چار مہینوں میں 1584 ملین روپے اکٹھے ہوئے اسی طرح گزشتہ سالوں میں  کرونا وباو کی وجہ سے بارڈر پر کام ماضی کے مقابلے میں نہ ہونے کے باوجود 2021 میں صرف اکتوبر، نومبر کے مہینوں میں  207.869 بلین ٹیکس جمع ہوئے۔   2022 میں انہی مہینوں میں یہ محصولات بڑھ کر  372.098  ملین تک پہنچ گئی۔

   سلک روٹ ڈرائی پورٹ سوست سالانہ ایک خطیر رقم ٹیکس کی مد میں پاکستانی خزانے میں جمع کرنے کے باوجود نہ صرف سوست قصبہ بلکہ پوار ضلع ہنزہ بنیادی ضروریات  مثلا بجلی، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی، ڈاکٹرز کی کمی، ہسپتال اور تعلیمی اداروں کی ناگفتہ بہہ  صورت حال سے دوچار ہیں۔

  حکومتی سرپرستی میں  بیوروکریسی کے ذریعے کھیلوں کا انعقاد کرانے کے ساتھ کھیل کے میدان اور مقامات کی تبدیلی سے  علاقے کے نوجوانوں کو اپس میں دست گریبان بنانے میں لگے ہوئے ہیں وہی حلقے سے منتخب نمائندہ کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی ترجیحات میں عوامی مسائل اور اس کے حل کے لئے کسی بھی طرح کا ٹھوس حکمت عملی مفقود ہے۔ دوسری جانب دلچسپی کا فقدان دیکھائی دے  رہا ہیں۔

دورافتادہ علاقے شمشال اور چیپورسن کے اہم بنیادی اشوز سڑک جو ان لوگوں کی بنیادی ضرورت ہیں  مگر حلقے کے نمائندہ اور  سرکاری حکام کی عدم توجہی کے باعث سے التوا کا شکار ہیں۔

 دوسری طرف جہاں سرکاری سطح پر ہنزہ کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہیں  وہی خود عوامی سطح پر بھی یہی کچھ صورت حال سے دوچار ہیں آٹا نایاب، بجلی غائب، شمشال اور چیپورسن روڈ تباہ،  ہسپتالوں میں بنیادی سہولتیں موجود نہیں، ڈاکٹرز غائب،  زمینیں اونے پونے داموں فروخت کئے جارہے ہیں، حکومتی محکمہ کی جانب سے عوامی ملکیتی زمینوں پر غیر قانونی مائینگ، لیزین جاری ہو رہے ہیں عوام کو اپنے جائز حقوق کے حصول اور گھمبیر بنیادی  مسائل سے توجہ ہٹانے، علاقے میں بنیادی ضرویات کی عدم دستیابی کے باوجود نوجوان گاؤں گاؤں کے درمیان ونٹر اسپورٹس کو لے کر گھتم گتھا نظر آرہے ہیں۔

  حکومتی سرپرستی میں  بیوروکریسی کے ذریعے کھیلوں کا انعقاد کرانے کے ساتھ کھیل کے میدان اور مقامات کی تبدیلی سے  علاقے کے نوجوانوں کو اپس میں دست گریبان بنانے میں لگے ہوئے ہیں وہی حلقے سے منتخب نمائندہ کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی ترجیحات میں عوامی مسائل اور اس کے حل کے لئے کسی بھی طرح کا ٹھوس حکمت عملی مفقود ہے۔ دوسری جانب دلچسپی کا فقدان دیکھائی دے  رہا ہیں۔  بیورو کریسی میڈیا پر گلگت بلتستان بالخصوص ہنزہ کو سویزر لینڈ اور کینیڈا سے تشبہ دیتے نہیں تھکتے۔ ساتھ ہی ہنزہ کو بنیادی ضروریات بجلی، پینے کا صاف پانی، صحت، تعلیم اور رابطہ سڑکوں سے محروم رکھا جا رہا ہیں۔

 گلگت بلتستان میں بنیادی اشیائے ضروریہ  گندم اوربجلی کی قلت، صحت اور تعلیم کی سہولیات کی عدم دستیابی اور بے روزگاری کے باعث 20 لاکھ افراد فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں اتنے گھمبیر مسائل سے گزرنے کے باوجود خصوصا ہنزہ کے باشندے ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں۔

اسی طرف گلگت بلتستان حکومت سیاحت کے نام پر ہنزہ کے وسائل دریا، زمین وغیرہ پرائیوٹائز کرنے کی غرض سے بڑے بڑےکاروباریوں کے ساتھ  سمجھوتہ کرنے کے ساتھ سیاحت کی ترقی کے نام پر گلگت بلتستان کے کروڑوں روپے حکومتی ارکان اور بیوروکریسی کے غیر ملکی دوروں پر صرف کی جارہی ہیں ۔

 گلگت بلتستان میں بنیادی اشیائے ضروریہ  گندم اوربجلی کی قلت، صحت اور تعلیم کی سہولیات کی عدم دستیابی اور بے روزگاری کے باعث 20 لاکھ افراد فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں اتنے گھمبیر مسائل سے گزرنے کے باوجود خصوصا ہنزہ کے باشندے ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں۔

 اپنے جائز حقوق سے لا پرواہ  عوام بیوروکریسی کے رحم وکرم پر ہیں جس کی وجہ سے ضلع ہنزہ سرکاری ترقیاتی عمل سے مکمل طور پر باہر ہوچکا ہیں ۔

ان گھمبیر مسائل سے نکلنے کے لئے حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ درجہ ذیل اقدامات اٹھانا پڑے گا تاکہ ہنزہ کے محرمیوں کا کسی حد تک آزلہ ہوسکیں۔ 

حکومتی ارکان اور بیورکریسی پر اٹھنے والے  غیر ترقیاتی بجٹ کو کم سے کم کرکے بنیادی ضروریات جیسا کہ بجلی، صحت و تعلیم اور ایمرجنسی صورت حال سے نمٹنے کے سازو سامان کی فراہمی کو ممکن بنانے پرفنڈز کا استعمال کیاجائے۔

اداروں میں بڑھتی کرپشن کی وبا کے روک تھام کے لئے جزا و سزا کے نظام کو مؤثر کرکے بدعنوانیوں کو ختم کرنے کی حکمت عملی کو واضح  کیا جائے۔

بلدیاتی نظام کے زریعے ترقیاتی کام کو سرانجام دینے کے لیے اختیارات کے ساتھ فوری انتخابات کرایاجائے ۔

موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ابتر ہوتی ہوئی صورت حال کو کم سے کم کرنے کے لئے بے ہنگم اور بڑے بڑے ہوٹلوں کی تعمیرات پر پابندی عائد کی جائے ماحول دوست پبلک ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیا جائے۔

سلک روٹ ڈرائی پورٹ میں کسٹم محصولات سے حاصل آمدنی کا کم ازکم پانچ فیصد  فنڈ ضلع ہنزہ  کے ترقیاتی بجٹ کے لئے  مختص کیا جائے۔

موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ابتر ہوتی ہوئی صورت حال کو کم سے کم کرنے کے لئے بے ہنگم اور بڑے بڑے ہوٹلوں کی تعمیرات پر پابندی عائد کی جائے ماحول دوست پبلک ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں