تحریر:فریاد فدائی
ہنڈورس لاطینی امریکہ کا چھوٹا سا ملک ہے اس ملک کو کولمبس نے 1502ء میں دریافت کیا تھا 1508 ء میں اس ملک کو اسپینش نے اپنا کالونی بنا لیا کہا جاتا ہے کہ یہ ملک گھنے جنگلات، صاف و شفاف پانی اور کیلے کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے دنیا بھر کے منڈیوں میں آج بھی ہنڈورس کی کیلے کا چرچا ہے یہ ملک آج بھی امریکا، فرانس، اسپین،کینیڈا اور دیگر یورپی ممالک میں کیلا ایکسپورٹ کرتا ہے ظاہر ہے ہنڈورس کیلے کی پیداوار کے لئے مشہور تھا تو یہاں کے لوگوں نے کیلے کے کاروبار پر زیادہ توجہ دیئے لیکن یہ ملک بہت جلد کیلے کی وجہ سے بدنامی کا شکار بھی ہوا۔
1901ء یا 1902ء میں یہاں دو فروٹس کمپنیاں وجود میں آئی ایک یونائیٹڈ فروٹس جبکہ دوسرا سٹینڈرڈ فروٹس کے نام سے مشہور ہوئی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی جنگ میں یہ دونوں کمپنیاں ایک دوسرے کی مخالفت میں کھل کر سامنے آگئی اور ان میں شدید تنازعہ کھڑا ہوا یونائیٹڈ فروٹس کمپنی آمدن اور اثر رسوخ کے لحاظ سے سٹینڈرڈ فروٹس کمپنی سے قدرے زیادہ مضبوط تھی چنانچہ انہوں نے سیاست کی آڑ میں کاروبار کو بڑھانے اور کمپنی کی دائرہ کار کو وسیع کرنے اور غیر قانونی طور پر فروٹس برآمد کرنے کے لئے پہلے پولیس کو خرید لیا پھر مشیر، وزیر حتیٰ کہ وزیر اعظم تک کو اپنا ملازم بنا دیا یوں سٹینڈرڈ فروٹس کمپنی کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا لیکن مفادات کی جنگ یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ یونائیٹڈ فروٹس کمپنی نے جج اور پھر تمام سرکاری دفاتر پر اپنے بندے بھرتی کئے یوں ایک وقت آیا ہنڈورس میں یونائیٹڈ فروٹس کمپنی کی حکومت وجود پائی۔
یہ سب تماشا سٹینڈرڈ فروٹس کمپنی سے دیکھا نہ گیا اور اس نے یونائیٹڈ فروٹس کمپنی کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لئے امریکا، فرانس اور دیگر یورپی ممالک جن کے فروٹس کمپنیوں کو فروٹس فروخت کرتی تھی ان سے مالی امداد حاصل کی اور پورے ملک میں جنگ کا ماحول پیدا کردیا اس دوران کسی امریکی مصنف نے اس صورتحال پر کتاب لکھا جس میں انہوں نے کتاب میں جنگ کا ذکر کرتے ہوئے ہنڈورس کا نام بنانا ری پبلک رکھ دیا اس دن سے آج تک لوگ ہنڈورس کو بنانا ری پبلک کے نام سے جانتے ہیں بلکہ آج دنیا بھر میں کوئی بھی ملک جب سیاسی، معاشی اور سفارتی طور پر عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے تو اسے بنانا ری پبلک کا نام دیتے ہیں۔
یہ سب تماشا سٹینڈرڈ فروٹس کمپنی سے دیکھا نہ گیا اور اس نے یونائیٹڈ فروٹس کمپنی کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لئے امریکا، فرانس اور دیگر یورپی ممالک جن کے فروٹس کمپنیوں کو فروٹس فروخت کرتی تھی ان سے مالی امداد حاصل کی اور پورے ملک میں جنگ کا ماحول پیدا کردیا اس دوران کسی امریکی مصنف نے اس صورتحال پر کتاب لکھا جس میں انہوں نے کتاب میں جنگ کا ذکر کرتے ہوئے ہنڈورس کا نام بنانا ری پبلک رکھ دیا اس دن سے آج تک لوگ ہنڈورس کو بنانا ری پبلک کے نام سے جانتے ہیں بلکہ آج دنیا بھر میں کوئی بھی ملک جب سیاسی، معاشی اور سفارتی طور پر عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے تو اسے بنانا ری پبلک کا نام دیتے ہیں۔
میں ہنڈورس کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد شدید خوف محسوس کی اور سوچنے پر مجبور ہوا کہ ہمارے سیاسی نمائندے ہر پریس کانفرنس میں ملک کو بنانا ری پبلک سے منسوب کرتے ہیں یا تشبیہ دیتے ہیں جب بھی ملک میں عام انتخابات ہوئے شکست خوردہ پارٹی نے یہ واویلا شروع کرتی ہے اور ملک کو بنانا ری پبلک کا طعنہ دیتی جب بھی ڈالر کی قیمتوں میں اضافے کی خبر سامنے آتی ہے اس دن سارے سیاسی جماعتیں میڈیا میں آجاتی ہیں اور باتوں باتوں میں ملک کو بنانا ری پبلک کا طعنہ دیتی ہیں حالانکہ ڈالروں میں کاروبار اس ملک کے صرف 5 فی صد لوگ کرتے ہیں باقی 95 فی صد لوگوں کا ڈالر سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے اس کے باوجود بھی یہ طعنہ کیوں؟
آج یہ ملک جس معاشی بحران سے گزر رہا ہے بلکہ دیوالیہ ہوچکا ہے تو کسی قدرتی وسائل کی کمی یا زرعی اجناس کی قلت سے نہیں بلکہ سیاسی ہٹ دھرمی اور مفادات کی جنگ نے اس ملک کو اس نہج پر پہنچایا ہے کہ آج ہمیں آئی ایم ایف کی شرطوں پر قرضے مل رہے ہیں ہمارے نمائندے جینوا میں سیلاب متاثرین کے نام پر بھیگ مانگ رہے ہیں ورنہ تو ہم اپنی ضرورت پوری کر کے پوری دنیا کو دالیں، چاول، کپاس، دودھ، گھی، آٹا ،اور چینی برآمد کرسکتے ہیں لیکن سیاسی عدم استحکام اور مفادات کی جنگ نے اس ملک کو دیوالیہ بنایا ہے ۔
شائد یہ لوگ ہنڈورس کی تاریخ سے ناآشنا ہیں یا تو یہ سچ مچ اس ملک کو بنانا ری پبلک بنانے کا مہم چلا رہے ہیں حالانکہ اس ملک میں اب تک نہ کوئی سیاسی عدم استحکام کا ماحول پیدا ہوا ہے اور نہ ہی قانون کی رٹ کو کوئی کھلے عام چیلنج کرسکتا ہے ملک زرعی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کے مشہور زرعی ممالک میں شامل ہے اس ملک کو اللّٰہ تعالیٰ نے چار موسم دئیے ہیں۔
یہاں ہر ایک ہزار کلو میٹر پر موسم کی کیفیت مختلف ہوتی ہے اس ملک کے پاس سمندر، صحرا، ریگستان، پہاڑ زرخیز زمین، اور پوٹھوہار سب کچھ ہیں آپ شمال کی طرف چلے جائیں آپ کو ہر قدم پر گلیشیئرز ملیں گے آپ کو بہترین صاف و شفاف پانی کی آبشاریں ملیں گے آپ کو دنیا کا ہر فروٹ پاکستان میں میسر ہوگا اس کے باوجود ہمارے سیاست دان اس ملک کو بنانا ری پبلک سے تشبیہ دیتے ہیں لیکن وہ یہ بات بھی بتانے کا گوارا تک نہیں کرتے ہیں کہ آخر اس ملک کو بنانا ری پبلک بنانے میں کردار کس کا ہے؟
اقتدار کے مزے آپ لے رہیں ہیں اگر معاشی بدحالی ہے تو اس کا ذمے دار آپ ہیں برسوں سے آپ بھاری بھاری حکومت کررہے ہیں اگر قانون کی بالادستی قائم نہیں ہے تو اس میں بھی قصور آپ ہی کا ہے کیوں کہ ایوانوں میں بیٹھ کر قانون سازی آپ ہی کررہے ہیں عام عوام صرف اور صرف دو وقت کی روٹی حاصل کرنے میں مصروف ہے تو پھر اس ملک کو بنانا ری پبلک کون بنا رہا ہے؟
آج یہ ملک جس معاشی بحران سے گزر رہا ہے بلکہ دیوالیہ ہوچکا ہے تو کسی قدرتی وسائل کی کمی یا زرعی اجناس کی قلت سے نہیں بلکہ سیاسی ہٹ دھرمی اور مفادات کی جنگ نے اس ملک کو اس نہج پر پہنچایا ہے کہ آج ہمیں آئی ایم ایف کی شرطوں پر قرضے مل رہے ہیں ہمارے نمائندے جینوا میں سیلاب متاثرین کے نام پر بھیگ مانگ رہے ہیں ورنہ تو ہم اپنی ضرورت پوری کر کے پوری دنیا کو دالیں، چاول، کپاس، دودھ، گھی، آٹا ،اور چینی برآمد کرسکتے ہیں لیکن سیاسی عدم استحکام اور مفادات کی جنگ نے اس ملک کو دیوالیہ بنایا ہے ۔ آج پاکستانی قوم کو جس مقام پرلاکر کھڑا کیا گیا ہے اور حکومت آئی ایم ایف کے جوتے چاٹ رہی ہے یہ نوبت ان ہی لوگوں کی بے جا کرپشن اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے آئی ہے پھر بھی بحیثیت مسلمان اور بحیثیت پاکستانی ہمارا یقین ہے کہ یہ ملک ایک نہ ایک دن آئی ایم ایف اور ان نااہل حکومتوں کی جکڑ سے نکل کر خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوگا لہذا سیاست دانوں کو چہروں پر معمونیت کے آنسو سجا کر کھنڈر نما منہ سے بنانا ری پبلک جیسے الفاظ کہنے کے بجائے ملک میں قانون کی بالادستی قائم کرنے کے ساتھ ساتھ مفادات کی خول سے باہر آنے کی ضرورت ہے ۔