Baam-e-Jahan

الف لیلہ پڑھنا یا نہ پڑھنا


ترجمہ: آصف فرخی


ڈاکٹر قاسم یعقوب لکھتے ہیں،

الف لیلہ کو مشرقی تہذیب کا نمائندہ قرار دینے والے اس حقیقت پر کبھی بات کرتے دکھائی نہیں دیتے کہ اس تہذیب میں عورت سے جس خوف ناک تعصب کا اظہار کیا گیا ہے ، کیا وہ سب مشرقی اقدار کا عکس ہے ؟

کیا الف لیلہ محض تجسس، تخیل آمیز اور مافوق الفطرت کہانیوں کا مجموعہ ہے یا اورئنٹل اقدار کی قدیم ثقافت کا نمائندہ ادب بھی تسلیم کیا جاتا ہے؟

میں نے سرشار کی ترجمہ "ہزار داستان”  کا مطالعہ شروع کیا تو آغاز ہی سے عورت کے حوالے سے تعصب آمیز بیانیے کے اس سوال کے ہالے سے نکل نہ سکا۔ بلکہ اس داستان کی وجہِ تصنیف ہی عورت کا تحقیری کردار ہے۔  کئی سو صفحات کے بعد بھی یہ سوال ہر صفحے پر چراغ کے فتیلے کی طرح روشن دکھائی دیتا رہا۔

اوحان پامک نے میرے سوال کو مزید انگیز کیا ہے ، وہ کہتے ہیں:

الف لیلہ کو مشرقی تہذیب کا نمائندہ قرار دینے والے اس حقیقت پر کبھی بات کرتے دکھائی نہیں دیتے کہ اس تہذیب میں عورت سے جس خوف ناک تعصب کا اظہار کیا گیا ہے ، کیا وہ سب مشرقی اقدار کا عکس ہے ؟

"الف لیلہ کی دنیا میں کسی عورت پر کبھی بھروسا نہیں کیا جا سکتا جو وہ کہتی ہیں آپ اس پر اعتبار نہیں کر سکتے، ان کا اس کے سوا کوئی کام نہیں ہے کہ وہ مردوں کو اپنی چالاکیوں سے دھوکہ دیں۔ یہ پہلے صفحے ہی شروع ہوجاتا ہے جب شہر زاد محبت سے محروم ایک شخص کی کہانیوں سے مسحور کرکے اپنے قتل سے باز رکھتی ہے۔ اگر یہ نمونہ اس پوری کتاب میں دُہرایا جاتا ہے تو یہ اس بات کا عکاس ہے کہ جس ثقافت نے اسے پیدا کیا اس میں مرد ، بنیادی طور پر اور کس گہرائی کے ساتھ عورتوں کے خوف میں مبتلا تھے۔

کیا الف لیلہ محض تجسس، تخیل آمیز اور مافوق الفطرت کہانیوں کا مجموعہ ہے یا اورئنٹل اقدار کی قدیم ثقافت کا نمائندہ ادب بھی تسلیم کیا جاتا ہے؟

اس کو مزید تقویت اس حقیقت سے ملتی ہے کہ عورتیں جو ہتھیار سب سے زیادہ کامیابی کے ساتھ استعمال کرتی ہیں۔ وہ ان کی جنسی کشش ہے۔ اس لحاظ سے، الف لیلہ اس عہد کے مردوں کے سب سے زیادہ توانا خوف کا طاقت ور اظہار ہے: یہ کہ عورتیں انھیں چھوڑ نہ جائیں، بے وفائی نہ کریں، ان کو تنہائی کی سزا نہ دیں۔ اس خوف کو سب سے زیادہ شدت کے ساتھ جو کہانی انگیخت کرتی ہے— اور سب سے زیادہ اذیت کوشی کی لذت فراہم کرتی ہے۔۔۔۔۔وہ اس سلطان کی کہانی ہے جو اپنے پورے حرم سرا کو حبشی غلاموں کے ساتھ مبتلا دیکھتا ہے۔ یہ کہانی بدترین مردانہ خوف اور عورتوں کے خلاف تعصب کی تصدیق کرتی ہے۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے