تحریر: کریم اللہ
چترال کے علاقہ گرم چشمہ لٹکوہ کے باسی آج پھتک کا تہوار انتہائی عقیدت و احترام سے منا رہے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک ہفتہ قبل پھتاکین (جو پتھک کے لئے لوگوں کو تاریخ و دن بتاتے ہیں) گھر گھر جا کر یکم فروری بروز بدھ کو پتھک کا تہوار منانے کی خوش خبری سنائے تھے اور آج علاقے کے سارے گھروں میں جشن پھتک منایا جا رہا ہے۔
جشن پھتک کے موقع پر گھر گھر انتظامات کئے جاتے ہیں ایک ہفتہ قبل ہی گھر کی صفائی ستھرائی کی جاتی ہے بالخصوص گھروں میں دھوان کی وجہ سے جو گرد (کھوار زبان میں اس کالے رنگت کے گرد و غبار کو سوئی کہتے ہیں) جمع ہوتا ہے اسے صاف کیا جاتا ہے جسے ” سوئی دیک” کہتے ہیں۔
لٹکوہ کے لوگ اسے لوٹ پھتک یعنی بڑا پھتک کہتے ہیں۔ اور بعض لوگ اسے پیرو پھتک یعنی پیر (ناصر خسرو) کا پھتک یا تہوار کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
اور یکم فروری کی صبح سویرے گھر کا بڑا اٹھ کر گھر میں "پھتک” لگاتے ہیں۔ یعنی آٹے سے گھر کے چھتوں کو سفید بنایا جاتا ہے۔
اس موقع پر یہاں خصوصی طعام کے طور پر مقامی خوراک جسے کھوار زبان میں ݰوݰپ یا ݰوݰپڑاکی کہتے ہیں تیار کی جاتی ہے۔ جبکہ پنیر اور دودھ سے بنے خوراک بھی آج ہی کے دن کے لئے مخصوص ہوتے ہیں۔
لٹکوہ کے لوگ اسے لوٹ پھتک یعنی بڑا پھتک کہتے ہیں۔ اور بعض لوگ اسے پیرو پھتک یعنی پیر (ناصر خسرو) کا پھتک یا تہوار کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
ایک روایت یہ ہے کہ گیارہویں صدی عیسوی کے نامور اسماعیلی داعی، شاعر و فلسفی اور سیاح حکیم ناصر خسرو اسماعیلی عقیدے کی تبلیغ کے سلسلے میں یمگان سے براستہ شاہ سلیم دوراہ پاس چترال کے اسی علاقے کا دورہ کیا تھا۔
یہاں کے مقامی روایات کے مطابق حکیم ناصر خسرو نے گرم چشمہ کے مشہور گاؤں ایژ دوآبہ کے سامنے پہاڑی پر 21 دسمبر کو بیٹھ کر چلہ کشی شروع کی اور 31 جنوری کو چالیس دن بعد انہوں نے اپنی چلہ کشی ختم کی اور نیچے گاؤں میں اتر کر لوگوں کو جمع کرکے انہیں اسماعیلی عقیدے کی دعوت دی اسی کی یاد میں ہر سال یکم فروری کو اس علاقے میں پھتک کا تہوار منایا جاتا ہے۔
کہ چترال کی مقامی روایات کے مطابق لوٹ چیلاہ 21 دسمبر کو شروع ہوتا ہے اور 31 جنوری کو چالیس دن کے بعد ختم ہو جاتے ہیں اس کے بعد یہاں سردی کا زور ٹوٹنا شروع کر دیتے ہیں یہاں کے لوگ مختلف موسموں کے ساتھ تہوار مناتے آرہے ہیں۔ جن میں سے پھتک بھی شامل ہے
تاہم گیارہوں صدی کے اس نامور اسماعیلی مبلغ ناصر خسرو کی گرم چشمہ آمد اور یہاں چلہ کشی سے متعلق کوئی مستند دستاویز موجود نہیں۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ناصر خسرو کوئی صوفی تھا نہ ان سے متعلق چلہ کشی کی کوئی روایات تاریخی دستاویزات اور خود ان کی تحریروں میں ملتی ہے۔ اس لئے ان کی چلہ کشی سے متعلق بات شاید درست نہ ہو۔
موجودہ دور کے نامور اسماعیلی مورخ ڈاکٹر عزیز اللہ نجیب اپنی کتاب "چترال اور گلگت بلتستان کے اسماعیلی” میں لکھا ہے کہ ناصر خسرو کی چلہ کشی سے متعلق جس جگہ کی نشاندھی کی جاتی ہے اس پہاڑی پر نہ بیٹھنے کی جگہ ہے اور نہ وہاں انسان چالیس روز تک چلہ کاٹ سکتا ہے۔ تاہم مقامی لوگوں کے حوالے سے انہوں نے لکھا ہے کہ پرانے زمانے میں اس پہاڑی پر بڑا غار تھا جو پہاڑی گرنے کی وجہ سے ختم ہو گیا ہے۔
ناصر خسرو کی چترال آنے یا نہ آنے سے متعلق کوئی بھی دستاویز موجود نہیں اس لئے نہ تو ہم آج ان کی گرم چشمہ آمد کو یکسر مسترد کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان روایات کو من و غن تسلیم کر سکتے ہیں۔
ناصر خسرو کی چترال آنے یا نہ آنے سے متعلق کوئی بھی دستاویز موجود نہیں اس لئے نہ تو ہم آج ان کی گرم چشمہ آمد کو یکسر مسترد کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان روایات کو من و غن تسلیم کر سکتے ہیں۔
تاہم گرم چشمہ جس کا پرانا نام انجگان تھا یہ بدخشان اور یمگان کے نزدیکی علاقے ہیں بہت ممکن ہے زمانہ قدیم میں یہ ایک ہی قلمرو کا حصہ رہے ہیں۔
تاہم جشن پھتک یہاں کی قدیم ترین تہذیبی روایات کے باقیات میں سے تہوار ہے جو زمانہ قدیم سے ہر سال یکم فروری کو مناتے آرہے ہیں۔ حقیقت یہ یوں بھی ہے کہ چترال کی مقامی روایات کے مطابق لوٹ چیلاہ 21 دسمبر کو شروع ہوتا ہے اور 31 جنوری کو چالیس دن کے بعد ختم ہو جاتے ہیں اس کے بعد یہاں سردی کا زور ٹوٹنا شروع کر دیتے ہیں یہاں کے لوگ مختلف موسموں کے ساتھ تہوار مناتے آرہے ہیں۔ جن میں سے پھتک بھی شامل ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنے تہذیبی روایات کو زندہ رکھنے کے لئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہیں۔