Baam-e-Jahan

کیا بڑی زبانیں چھوٹی زبانوں کو کھا رہی ہیں؟


تحریر: زبیر توروالی


خیبر پختون خوا کے معیاری یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز (IM Sciences) کے چند طلباء و طالبات نے مل کر پشاور ادبی میلے کے نام سے ایک دو روزہ ادبی و علمی محفل سجائی ہے جس کا دوسرا دن آج اتوار کو ہوا۔ پہلے دن کے نشستوں میں ایک نشست کا عنوان یہ سوال تھا ”کیا بڑی زبانیں چھوٹی زبانوں کو کھا رہی ہیں؟“۔ بظاہر سادہ سا سوال تھا تاہم اپنے اندر کئی معانی سموئے ہوئے تھا۔

اس نشست پر میں بھی شریک گفتگو تھا۔ پوری نشست کی گفتگو میں چار شرکاء واضح طور پر دو گرہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ کا موقف رہا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ جو زبانیں مٹ رہی ہیں ان کے خاتمے میں ان زبانوں کے بولنے والوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ریاست کا کوئی اتنا کردار نہیں۔ اسی گروہ کے موقف کا ایک دوسرا نکتہ یہی تھا کہ نہیں بلکہ بڑی زبانیں چھوٹی زبانوں کو متاثر کرکے اور اپنے الفاظ مستعار دے کر زرخیز بناتی ہیں۔

میں دوسرے گروہ میں چلا گیا جس کا موقف تھا کہ زبانیں اگرچہ اپنی ذات میں غیر جانب دار ہوتی ہیں تاہم ان کے بولنے والوں کا رویّہ، ان کی سیاسی و معاشی طاقت اور ان سے جڑی ہوئی توقیر چھوٹی زبانوں کو ختم کرنے کی وجوہات پیدا کرتی ہے۔

کچھ مثالوں سے وضاحت کی جیسے:

1۔ ایک توروالی خاتون ایک دور دراز گاؤں سے آئی اور نادارا آفیس میں متعلقہ دیٹا اپریٹر کے سامنے بیٹھ گئی ان کو شناختی کارڈ بنوانا تھا۔ وہ آپریٹر کی زبان نہیں سمجھتی تھیں۔ آپریٹر نے نام پوچھا تو اس کو اندازہ ہوا کہ نام بتانا ہے۔ اس نے اپنا نام ”یُون“ جسے اس کے والدین نے رکھا تھا بتایا۔ متعلقہ آپریٹر پریشان ہوا کہ یہ کیسا نام ہے۔ ساتھ کھڑے نادارا آفیس میں چوکیدار کی پوسٹ پر متعین توروالی مرد آگے بڑھا اور کہا ، سر اس کا نام یُون ہے جس کا مطلب سپوگمئی ہے۔ آپریٹر نے فوراً نام سپوگمئی لکھا اور اگلے خانوں میں اس عورت کی قومیت آفغان لکھی اورمادری زبان پشتو ۔ دو ہفتے بعد یُون کو شناختی کارڈ ملا جس پر اس کا نام سپوگمئی لکھا تھا۔

اسی طرح ہم سرکاری اور دفتری کاغذات میں زوڑ کلے کی جگہ پُران گام نہیں لکھ سکتے، درولئی کی جگہ دیریل نہیں لکھ سکتے اور نہ ہی بشیگرام کی جگہ بیݜگام، مانکیال کی جگہ مینیکھال اور کیدام کی جگہ کمل لکھ سکتے ہیں۔ رامیٹ کو ڙیمیٹ لکھ سکتے ہیں نہ گورنئی کو گورنال لکھ سکتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا اور ہورہا ہے؟ ظاہر ہے ریاست سوات کی سرکاری زبان پشتو تھی اور انہوں نے یہ نام پشتو میں تبدیل کرکے لکھے۔

یہ لطیفہ تو سب کو یاد ہوگا کہ ایک توروالی شخص نے ایک ریچھ مارڈالا۔ بادشاہ سوات نے بلایا اور پوچھا کیوں مارا۔ یہ شکاری شخص سمجھا کہ بادشاہ سلامت پوچھ رہے ہیں کہ کیسے مارا۔ لہذا اس نے منظر کشی کرتے ہوئے جواب دیا، ”باچا صیب تہ لکہ یگ شوئے۔ ما اوکڑو ڈز، تا اوکڑو بھر“۔ یہ لطیفہ آج بھی لوگ انجوائے کرتے ہیں۔ اس کے پیچھے جو معانی چھپے ہیں وہ یہی کہ متعلقہ شخص اس قدر بے تہذیب اور جٹ تھا۔ حالانکہ اس کو صرف بادشاہ سلامت کی زبان نہیں آتی تھی۔ یہی سے اپنی زبان کے ساتھ شرم جڑ جاتی ہے اور بتدریج سمجھا جاتا ہے کہ اپنی زبان تو کسی کام کی نہیں اور جاہلوں کی زبان ہے۔

سائنس کی زبان میں جہاں ہمیں لاطینی، یونانی زبانوں کے الفاظ ملتے ہیں وہی پہ ہمیں عربی زبانوں کے الفاظ بھی ملتے ہیں۔ کسی زمانے میں لاطینی سائنسی زبان تھی، اب انگریزی کو مانا جاتا ہے حالانکہ جرمن اور فرانسیسی و روسی سائنس بھی اپنی زبانوں میں سیکھتے ہیں، وہی پہ یہ بھی ممکن ہے کہ مستقبل میں انگریزی کی جگہ کوئی اور زبان لے۔

2۔ آج کل ہمارے سارے جوان اور بڑے نادانستہ طور پر شُوگار کی جگہ جمعہ، لؤ آنگا کی جگہ ہفتہ، گھن آنگا کی جگہ منگل وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح مہینوں کے نام بھول گئے ہیں۔ کسی زبان کے بولنے والوں میں اسی طرح رویّوں کا پیدا ہونا ریاستی پالسیوں اور بڑی زبانوں کے لوگوں کی طرف سے برتاؤ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ خالص کی تلاش کرنا اور کسی نظریہ یا شے کو خالص مان کر اس پر ضد سے اکڑ جانا بنیاد گردی کہلاتی ہے۔ اسی طرح اگر لوگ اپنی زبان کو خالص کرنے پہ تل جائے تو بھی ممکن ہے کہ زبان کی نشونما رک جائے تاہم جہاں ممکن ہو اور جہاں اپنی زبان میں الفاظ موجود ہوں تو دوسری زبانوں سے ان کے متبادل کم از کم اپنی زبان بولتے وقت استعمال نہ کیا جائے تو یہ اس خطرے سے نبرد ازما زبان کی ترویج کے لئے بہتر ہوگا۔ بڑی یعنی طاقت ور زبان اسی طرح کسی کم طاقتور زبان کو متاثر کرتی ہے اور اکثر اوقات متاثر کرنے یا تبدیلی کا عمل یک طرفہ ہوتا ہے۔ اسی یک رخی کی وجہ سے خطرے سے نبرد ازما زبان کو خطرہ مزید بڑھتا ہے۔

3۔ کثیرالسانیت یعنی multilingualism ایک نہایت مفید عمل ہے۔ اس سے جہاں مختلف زبانوں کے بولنے والوں کے بیچ سمجھ اور رشتہ بڑھ جاتا ہے وہی پہ یہ شخص کے سیکھنے کے عمل کو تیز کرتا ہے اور ایک لحاظ سے ذہانت بھی بڑھاتا ہے۔ مگر طاقتور زبانوں سے منسلک لوگ اس پر زور زیادہ دیتے ہیں اور اکثر اوقات اس کے ذریعے بھی بڑی زبانوں سے الفاظ مستعار لے کر چھوٹی زبانوں میں ڈالا جاتا ہے جس سے اس زبان کی شناخت کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر اردو اور پشتو بولتے وقت لوگ لامحالہ انگریزی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ یوں بندے کے پاس اپنی زبان کے الفاظ کے ذخیرے میں کمی آجاتی ہے جو اگے جاکر اگلی نسلوں میں اس زبان کی معدومی کے خطرے کو مزید بڑھاتی ہے۔ جانتا ہوں کہ بڑی زبان کی طرف جھکاؤ اس زبان میں معاشی اور تعلیمی مواقع کی وجہ سے ہوتا ہے۔ معیشت کئی دوسرے عوامل پر ذیادہ انحصار کرتی ہے ورنہ چین اور جاپان کی معیشتیں آگے نہیں بڑھ پاتیں اگر انگریزی کو ہی صرف معیشت کی زبان مانا جائے۔

 اردو میں کئی الفاظ کا اضافہ یا ترجمہ عربی زبان سے کیا جاتا ہے اگرچہ اردو اپنی لسانی خصوصیت کی وجہ سے سنسکرت یا قدیم ہندی کے زیادہ قریب ہے۔ ایسا ایک خاص قومی مقصد کے تحت کیا جاتا ہے۔ ہمیں ان عربی الفاظ کی ادائیگی میں جہاں دقت ہوجاتی وہی پہ ہمیں یہ الفاظ غیر مانوس لگتے ہیں اور ہم اپنی کلونیئل تاریخ کی وجہ سے انگریزی کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ اردو میں عربی کے ان الفاظ سے بھی مانوسیت ہوسکتی ہے اگر ان الفاظ کو کثرت سے استعمال کرسکے۔

4۔ کسی زبان کو معدومی کے خطرات  ریاست یا بالادست طبقات کی وجہ سے زیادہ ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں جہاں جہاں بھی ایسی زبانین موجود ہیں جو خطرے سے دوچار ہیں ان کے بولنے والوں کی تاریخ ایک جیسی رہی ہے۔ سب کسی نہ کسی طور کسی سلطنت یا کسی سلطنت سے جڑے ہوئے حملہ آوروں کی زد میں رہے ہیں اور ان کا قتل عام کیا گیا ہے، ان کو ان کی آبائی زمینوں سے بے دخل کیا گیا ہے اور ان کو ان کی روایتی سیاسی طاقت سے محروم کیا گیا ہے۔ یہی پالیسیاں جدید ریاستوں میں مختلف حیلے بہانوں سے جاری ہیں اور اکثر دکھتی بھی نہیں ہیں۔

5۔ اسی نوابادیت کی وجہ سے ان لوگوں سے اپنی شناخت اور ثقافت چھین لئے گئے ہیں اور ان کو غلام بنا کر یا ان پر تسلط قائم کرکے ان کے اندر ان پالیسیوں اور رویّوں کی وجہ سے کئی نفسیاتی کیفیات پیدا کی گئی ہیں جن میں خود سے نفرت سر فہرست ہے۔ خود سے نفرت جب ہوجائے تو اباواجداد سے نفرت، اپنی ثقافت اور زبان سے نفرت پیدا ہوہی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے لوگ اپنی زبانوں کو، بلکہ خود کو بھی، کمتر سمجھتے ہیں تاہم وہ اس کا برملا اظہار کبھی نہیں کریں گے۔

 کثیرالسانیت یعنی multilingualism ایک نہایت مفید عمل ہے۔ اس سے جہاں مختلف زبانوں کے بولنے والوں کے بیچ سمجھ اور رشتہ بڑھ جاتا ہے وہی پہ یہ شخص کے سیکھنے کے عمل کو تیز کرتا ہے اور ایک لحاظ سے ذہانت بھی بڑھاتا ہے۔ مگر طاقتور زبانوں سے منسلک لوگ اس پر زور زیادہ دیتے ہیں اور اکثر اوقات اس کے ذریعے بھی بڑی زبانوں سے الفاظ مستعار لے کر چھوٹی زبانوں میں ڈالا جاتا ہے جس سے اس زبان کی شناخت کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔

6۔ جہاں زبانوں کی توقیر اور ترقی معاشی، سیاسی، ثقافتی اور سماجی ترقی سے جڑے ہیں وہی پہ زبان اور ثقافت کو وسیلے کے طور پر استعمال کرکے معاشی، سماجی اور سیاسی ترقی اور توقیر حاصل کی جاسکتی ہے۔ جہاں پہ انگریزوں نے انگریزی کی ترقی اور ترویج میں کردار ادا کیا ہے وہی پہ انگریزی نے کسی زمانے میں انگریزوں کی ترقی میں کردار ادا کیا ہے۔ یہ عمل دو طرفہ ہے۔ تاہم آج اگر کوئی زبان سائنس کی زبان ہے تو ماضی میں ایسی کوئی اور زبان تھی اور اس سے پہلے کوئی اور زبان۔ سائنس کی زبان میں جہاں ہمیں لاطینی، یونانی زبانوں کے الفاظ ملتے ہیں وہی پہ ہمیں عربی زبانوں کے الفاظ بھی ملتے ہیں۔ کسی زمانے میں لاطینی سائنسی زبان تھی، اب انگریزی کو مانا جاتا ہے حالانکہ جرمن اور فرانسیسی و روسی سائنس بھی اپنی زبانوں میں سیکھتے ہیں، وہی پہ یہ بھی ممکن ہے کہ مستقبل میں انگریزی کی جگہ کوئی اور زبان لے۔

نوابادیت کی وجہ سے ان لوگوں سے اپنی شناخت اور ثقافت چھین لئے گئے ہیں اور ان کو غلام بنا کر یا ان پر تسلط قائم کرکے ان کے اندر ان پالیسیوں اور رویّوں کی وجہ سے کئی نفسیاتی کیفیات پیدا کی گئی ہیں جن میں خود سے نفرت سر فہرست ہے۔ خود سے نفرت جب ہوجائے تو اباواجداد سے نفرت، اپنی ثقافت اور زبان سے نفرت پیدا ہوہی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے لوگ اپنی زبانوں کو، بلکہ خود کو بھی، کمتر سمجھتے ہیں تاہم وہ اس کا برملا اظہار کبھی نہیں کریں گے۔

7۔ مادری زبانوں میں ابتدائی تعلیم کی افادیت مسلمہ ہے۔ اس کو تحقیق نے بھی ثابت کیا ہے۔ تاہم آیا ثانوی یا اعلی تعلیم میں مادری زبان کا فی الوقت کیا کردار ہوسکتا ہے اس پر پاکستانی تناظر میں غور کرکے کہا جاسکتا ہے کہ اس کو فی الوقت انگریزی میں رہنا چاہے مگر کوشش ہونی چاہے کہ مادری زبانوں کو بتدریج اس قابل بنایا جاسکتا ہے۔

8۔ چونکہ ہماری مادری زبانوں سے منسلک معاشرے زیادہ تر کاشتکاری، گلہ بانی اور ایک یاغستانی معاشرے رہے ہیں اس لئے جب سائنس، سیاست، انسانی حقوق اور سماجی علوم سے جڑے ہوئے موضوعات کو ان زبانوں میں بیان کیا جانا ہو یا ان علوم کو ان زبانوں میں ترجمہ کرنا ہو تو ان سائنسی اصطلاحات کو اپنے اصل میں رہنے دیا جائے تاہم ان کے لئے اپنی زبانوں میں اصطلاحات ترتیب دیے جاسکتے ہیں۔ ان بڑی زبانوں میں ایسے اصطلاحات بھی کثرت استعمال کی وجہ سے رائج ہوئے ہیں ورنہ ان کا وجود ان میں بھی نہیں تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں