Baam-e-Jahan

ٹرافی ہنٹنگ اور غریب عوام


تحریر: ذوالفقار علی


1997 ء  میں محکمہ جنگلی حیات کے لاکھ کوششوں کے باؤجود  قومی جانور مارخور کی تعداد جب چترال میں  چند سو تک رہ کر   معدومیت کے دہانے پر پہنچی، تب حکومت کو خیال آیا کہ مقامی کمیونٹی کو شامل کئے بغیر جنگلی حیات بالخصوص  مارخور کا تحفظ ناممکن ہے ۔ دیہی سطح پر ویلج کنزرویشن کمیٹیاں وجود میں آئیں۔ لوگوں نے مال مویشیاں بیج دی اور جنگلات کو کنزروڈ  ایریا قرار دے کر وہاں سے  لکڑیاں لانا بھی ممنوع قرار دیا گیا۔

 یہ فارمولا اتنا موثر ثابت ہوا کہ چند سالوں میں ہی مارخور اور دیگر جنگلی حیات کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ۔ ہر سال ٹرافی ہنٹنگ نر مارخور کے تین لائسنسیز چترال کے لئے جاری کی جاتی ہیں۔ یاد رہے بیرونی شکاری فی لائسنس کے لئے 2 کروڑ پچاس لاکھ سے زیادہ کا رقم ادا کرتے ہیں۔ اس رقم کی تقسیم کچھ اس طرح ہوتی ہے۔ رقم کا 20 فی صد گورنمنٹ لے لیتی ہے جب کہ 80 فی صد عوام کو ملتا ہے۔

عوام کو ملنے والی رقم کی تقسیم کا فارمولا کچھ یوں ہے کہ جس وی سی سی میں شکار ہوگی رقم کا بڑا حصہ اس کو ملے گی اور بہت ہی معمولی حصہ اس سے ملحقہ وی سی سیز کو ملتا ہے ۔ اب مسئلہ یہاں شروع ہوتا ہے۔

چترال میں ہر سال تین بار مارخور کا شکار ہوتا ہے۔ تین میں سے ایک لائسنس گہریت گول کے لئے مختص ہے جبکہ دوسرا توݰی اور تیسرا لائسنس تیرین ݰاݰا ایریا کے لئے مختص ہے ۔

 گہریت گول اور توݰی میں ہر سال مختص کوٹے کے مطابق 1 ،1 شکار ہوتے ہیں  مگر ݰاݰا، تیرین اور اس سے ملحقہ علاقوں کے  کوٹے کا شکار بھی  1996 سے اب تک با اثر افراد کے اثر و رسوخ  سے  توݰی میں کرایا جاتا ہے۔

 1996 سے اب تک 27 لائسنس توݰی سے باہر علاقے جن میں السنگل وی سی کاست ، بوہتولی بالا ، بوہتولی پائین ، سیوخت ، وی سی سی شوغور ، پرسان ، کجو  اور وی سی سی ہرت کریم آباد  کے نام پر جاری ہوئے مگر اب تک وہاں 27 میں سے صرف 2 بار ٹرافی ہنٹنگ ہوئی وہ بھی 17 برس پہلے ۔

 جس کی وجہ سے فارن ہنٹنگ کا بڑا حصہ بااثر افراد  کے جیب میں چلے جاتے ہیں، اور غریب عوام کو بہت قلیل حصہ مل جاتا ہے۔ یہ گروپ اس کام میں اتنا ماہر ہو گیا ہے کہ فارن ہنٹر سے جو کمپنی یہاں شکار کرنے میں معاونت فراہم کرتا ہے ان کے ساتھ ان  کے گہرے تعلقات ہیں۔ فارن ہنٹر کے ساتھ ایک ٹور گائیڈ ہوتا ہے جس کے ساتھ یہ بااثر  گروپ معاملات وہاں اسلام آباد میں ہی طے کر لیتے ہیں۔ اگر عوام کافی کوشش کے بعد فارن ہنٹر کو اپنے ایریا میں لے جاکے جانور دکھانے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو یہ ٹور گائیڈ وہاں اس جانور کو مختلف حیلے بہانوں  جیسے سینگوں کا سائز کم کہ کر  ریجیکٹ کرکے بااثر افراد کے ایریا میں جانور کو سیلکٹ کرواتا ہے۔

کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں  نہیں ہوتے اس سال بااثر افراد سے ڈیل کی وجہ سے ٹور گائیڈ نے بوہتولی پائین ،بوہتولی بالا اور السنگل وی سی سی کاسیت میں ٹرافی سائز دو درجن کے قریب جانوروں کو یہ کہ کر مسترد کیا تھا کہ مندرجہ بالا مارخور کے سینگوں کا سائز 44 سے 47 انچ کے درمیان ہیں اور انھون نے اس سال 48 انچ یا اس سے اوپر سینگ  سائز کے مارخور کا شکار کرنا ہے۔

آج توݰی میں شکار کے بعد جب مذکورہ جانور کے سینگوں کا ناپ لیا گیا تو اس کے سینگوں کا سائز 40 انچ سے بھی کم تھے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان بااثر افراد کا چترال کے ہوٹلنگ شعبے پہ اجارہ داری ہے اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بیرونی شکاریوں کا  ٹہراؤ ان کے ہوٹل میں ہوتا ہے جہاں یہ ان کو سبز باغ دکھا کر توݰی سے باہر نکلنے ہی نہیں دیتے۔

 کئی بار جب وی سی سی صدور اپنے ایریا کے جانور کی تصویر لے کر توݰی میں بیرونی شکاریوں کے پاس جانے کی کوشش کی تب انہیں غیر متعلقہ اشخاص قرار دے کر ان کے پاس جانے سے روک دیا گیا ۔ شکاری آنے کی خبر سن کر کاسیت ،بوہتولی پائین، بوہتولی بالا ، پرسان ،ہرت کریم آباد، سی وخت شوغور کے سینکڑوں رضاکار دن رات تقریبا ہفتوں تک اس آس میں بے غیر پیسوں کے ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں اور اپنے اپنے ٹرافی سائز جانوروں پر نظر رکھتے ہیں کہ شاید اس بار کچھ کرشمہ ہو جائے اور وہ بھی کئی دہائیوں کے انتظار اور محنت کے بعد اپنے وی سی سی میں بیرونی شکاریوں  کو شکار کرتے دیکھنے کا خواب پورا کر سکیں مگر ہر سال ان کا یہ ارمان اس خبر کے ساتھ خاک میں مل جاتی ہے کہ اس سال دوسرا شکار  بھی کہیں اور نہیں مگر توݰی میں بااثر افراد کے علاقے  میں سر انجام پایا  اور پھر ایک لمبی سانس اور اگلے سال کا نہ ختم ہونے والا انتظار۔

ہم جملہ عوام کاسیت ،بوہتولی ،پرسان ،شوغور ،سی وخت اور ہرت کریم آباد وزیر اعظم پاکستان جناب  شہباز شریف، چیف جسٹس پاکستان، نگران وزیر اعلی خیبر پختونخوا ، چیف کنزرویٹر وائلڈ لائف اور ڈپٹی کمشنر لوئر چترال سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ غریب عوام کے اوپر ظلم اور ہمارے حق تلفی کا نوٹس لے اور ٹرافی ہنٹنگ پر مخصوص افراد کی اجارا داری ختم کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں