Baam-e-Jahan

یاک گرل کی بندش اور دیسی نوکر شاہی کا غروز


تحریر:اظہر علی

کل پھسو گوجال میں یاک گِرِل کے ہوٹل مالکان نے پیسوں میں ڈسکاؤنٹ نہ کرکے ظلِ الہٰی جسے فرنگی زبان میں اے سی کہا جاتا ہے کی شان میں گستاخی کی ، گستاخی کی سزا دیتے ہوئے موصوفِ گرامی نے مذکورہ ہوٹل کی تالا بندی کردی اور ایف آئی آر درج کردیا۔

 جواز یہ پیش کیا کہ ہوٹل میں ہیٹر چل رہا تھا ، ہیٹر چلانا تو گناہِ کبیرہ ہے۔ جس سے یہ گناہ سر زد ہو اسے سنگسار کرنا عین شرعی فریضہ ہے۔

عوام چونک اُٹھے کہ بادشاہ سلامت ہمارے ساتھ اس طرح جابرانہ طریقے سے کیوں پیش آئے جب کہ ہم نے اس کی شان میں کیا کیا نہیں کیا ، یہاں تک کہ بابائے گوجال کے لقب سے بھی سرفراز کیا۔

 پھر سوچ و بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ یاک گرل کا برگر شائد عالم پناہ کے پیٹ کے لئے بہت کم ہے اس لیے اگلی بار ایک پورے یاک کو شہید کرکے محترم و مکرم کے دسترخوان کے سامنے پیش کرتے ہیں شائد اس سے کوئی تَشفی ہو۔

کچھ ناسمجھ و منچلے نوجوانوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر شور و غوغا مچایا کہ اے سی نے اس طرح کی حرکت کرتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے ، موصوف تو قانون کی کتاب کے مطابق عوامی خادم کہلاتے ہیں اور اس کے اقدامات بالکل الٹ ہیں۔

 کچھ زیادہ جوشیلے گرم خون لڑکوں نے کہا کہ اے سی کو فوراً ضلع بدر کیا جائے اور کسی سلجھے ہوئے شریف النفس پاکباز اشرف المخلوق کو  اے سی کا عہدہ سونپا جایا۔

بات یہ ہے دوستوں ہم جس سماج میں رہتے ہیں اسے استعماری طاقتوں نے اپنے گھیرے میں ڈال رکھا ہے ، قانون نامی کوئی تصور یہاں نہیں پایا جاتا ، افسرشاہی کو ڈنڈا چلانے کے لئے ہی تخلیق کیا ہے جو وہ بہ احسن طریقے سے سر انجام دے رہے ہیں۔

 این جی اوز ، استعمار اور مذہبی اداروں کے گھٹ جوڑ سے ہمارے ناتواں جسموں کے ہڈیوں کو نوچ کر کھانے کے لئے تیار کھڑے ہیں۔ فرانز فینن کے الفاظ میں استعمار نے استعمار زدگان کو انسانی استحقاق سے نیچے گھٹا کر جانوروں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔

اگر اب بھی استعمار کے رویوں کو نہ سمجھا و پرکھا جائے اور اس کے خلاف پر امن جدوجہد نہ کی جائے تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں