Baam-e-Jahan

1975 کا نوٹیفکیشن! حقائق کیا ہے۔۔۔؟؟


تحریر۔ فضل الدین جوش


حکومت پاکستان  نے 1975ء کو ایک نوٹیفکیشن کیا تھا جس میں چترال کے اندر زمینات کے حوالے سے فیصلے شامل تھے جسے انیس سو پچھتر کا نوٹیفکیشن کہا جاتا ہے۔

نوٹیفکیشن کی بنیادیں۔

اس نوٹیفکیشن کی بنیادوں میں سب سے اہم مہتر چترال کا پاکستان کے ساتھ الحاق کے وقت کے معاہدات اور لینڈ کمیشن کے فیصلے شامل کئے گئے تھے۔

نوٹیفکیشن کا خدوخال۔

اس نوٹیفکیشن کے دو حصے ہیں۔

پہلے حصے میں مہتر چترال کے جائیدادوں کے تذکرے ہیں جن میں ان کے تولئے، رومال اور ٹوٹ پیک تک کا تذکرہ شامل ہیں

جبکہ دوسرے حصے میں ریاست چترال کے زمینات کا تذکرہ ہیں جن میں سڑکیں، جنالی، نہرین، دریا، پہاڑ، چراگاہیں، اشکار گاہیں وغیرہ کا تذکرہ ہے۔

اس نوٹیفکیشن کے خلاف کیس کی نوعیت۔

اس نوٹیفکیشن کے حصہ دوم یعنی ریاست کے ملکیتی زمینات کے حصے کے چار شقوں کو چترال کے بعض لوگوں نے عدالت میں چیلنج کیا ہے۔ جن میں شق نمبر چودہ، پندرہ سولہ اور اٹھارہ شامل ہیں۔

ان شقوں میں کیا ہے۔؟

ان چار شقوں میں گورنری قلعے، دریا اور دریائی صحراء، پہاڑ، چراگاہیں، معدنیات، جنگلات، شکار گاہیں، چراگاہوں وغیرہ کی نوعیت درج ہے جن کو ریاست پاکستان کے کھاتے میں ڈالا گیا ہے البتہ اس کے ساتھ وضاحتی نوٹ لکھے گئے ہیں کہ ان سب میں استفادے کا حق عوام کو حاصل ہیں۔ یہ بھی تذکرہ ہے کہ معدنیات یا جنگلات میں سے رائلٹی متصلہ علاقوں کے عوام کا بنیادی حق ہے جن کا تحفظ حکومت کرے گی۔

اب موجودہ کیس میں ان چار شقوں کو ختم کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

ان شقوں کے خاتمے کا انجام۔

ان چاروں شقوں کے ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انیس سو پچھتر سے آج تک ہزاروں کیسز کے فیصلے ان شقوں کے مطابق ہوئی ہے تو وہ سارے فیصلے ختم تصور ہوں گے۔  ہمارے اپنے علاقے لاسپور مین بھی ہزاروں کیسز کے فیصلے اسی نوٹیفکیشن کی بنیاد پہ ہوئی ہے۔ نوٹیفکیشن کے ان شقوں کے خاتمے کے بعد پھر دوبارہ سے گاؤں گاؤں کی سطح پر اختلافات، لڑائی جھگڑے اور فسادات پھوٹ پڑیں  گے جس سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوگا اور عوام کے جتنے حقوق اس نوٹیفکیشن کے بعد انہیں دئیے گئے ہیں وہ سب ختم ہو جائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں