تحریر: صنوبر ناظر
حال ہی میں پاکستان کے نسبتاً محفوظ دارلحکومت کے ایک پارک میں سرشام ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کے بعد ہمارےکرتا دھرتا اداروں سے لے کر عام آدمی تک کی یہی رائے تھی، ’’خواتین کو رات میں باہر نہیں نکلنا چاہیے۔‘‘
جنت سے نکلوانے والی ، ناقص العقل، اور آدھی گواہی والی جیسے القابات سے نوازی گئی قدرت کی اس مخلوق کوعرف عام میں عورت کہا جاتا ہے۔ وہی عورت جو ہزاروں سال قبل تاریخ کے اوراق میں ایک تخلیق کار ہونے کی بنا پر ارفع اور اعلیٰ ٹھہرائی جاتی تھی۔ جب سے انسان میں زمین کی ملکیت کا احساس پیدا ہوا تبھی سے عورت کو گھر کی کھونٹی سے باندھنا بھی لازمی ہو گیا۔
اس معرکہ کو سر کرنے کے لئے کبھی مذہب کا سہارا لیا گیا تو کبھی معاشرتی اقدار کا بہانہ تراشا گیا۔ پدر شاہی نظام کی جیت تبھی ممکن تھی جب عورت کی ذہنی نشونما کو ساکن کیا جا سکے۔
الطاف حسین حالی فرماتے ہیں:
جب تک جیو تم علم و دانش سے رہو محروم یاں
آئی ہو جیسی بے خبر ویسی ہی جاؤ بے خبر
صدیوں تک عورت مرد کے بنائے ہوئےاصولوں کے مطابق زندگی بسر کرتی آئی ہے۔ گو کہ فطرت نے عورت اور مرد کے درمیان فرق ضرور رکھا ہے۔ لیکن دنیاوی کرداروں میں عورت مرد کی تفریق فطرت نے نہیں بلکہ سماج نے روا رکھی اور عورت کو مرد کے بنائے ہوئے چند مخصوص کرداروں تک جبراً محدود کر دیا گیا۔
انفرادی طور پر عورتیں صدیوں سے اپنے اوپر ہونے والے جبر کو روکنے اور حقوق حاصل کرنے کی تگ و دو کر تی رہیں ہیں۔ اطالوی نژاد فرانسیسی ادیب اور شاعرہ کرسٹین دی پیزاں ”خواتین کے حق میں آواز اٹھانے والی ‘‘ پہلی دانشورسمجھی جاتی ہیں جنھوں نے 1399ء میں ”محبت کے خدا کا ایک خط ” اور 1405ء میں ”شہر خواتین کی کتاب‘‘ لکھ کر متعصب مرد فلسفیوں ، شاعروں اور ادیبوں کو بھرپور جواب دیا۔
برطانوی مصنف اور دانشور میری وولسٹن کرافٹ کی 1792ء میں چھپنے والی A Vindication of the Rights of Woman آج بھی کلاسیکی فیمنیزم کی پہلی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ میری نے پہلی بار عورتوں کے حقوق ، آزادی اور برابری کے نظریے کو بےباکانہ انداز میں پیش کیا۔ میری کو ”مادر فیمنیزم‘‘کے لقب سے نوازا گیا۔
انقلاب فرانس میں آزادی کی تحریک کا حصہ رہنے والی بہادر ڈرامہ نگار، صحافی اور سیاسی کارکن اولیمپ دیگوغ جس نے”عورت کے حقوق کا ڈیکلریشن‘‘ تحریر کیا اور قومی اسمبلی میں پیش کیا اور اس کو پاس کروانے کا مطالبہ کیا۔
ہندوستان کی ساوتری بائی پھلے نے 1848ء میں ذات پات کے نظریے کو رد کرتے ہوئے لڑکیوں کے لئےتعلیم کے دروازے واکئےاور لڑکیوں کے لئے پونا میں ایک اسکول قائم کیا۔
رقیہ سخاوت علی مغربی بنگال کی ایک ایسی لکھاری گزری ہیں، جنھوں نے انیسویں صدی میں لیڈی لینڈ، سلطانہ کاخواب جیسے ناولٹ تحریر کئے۔ یہ ایک ایسے معاشرے کی کہانی تھی، جس میں گھر کے کام مرد اور امور حکومتعورتوں نے سنبھالی ہوئی ہے۔
ان خواتین کی قربانیوں کا ہی نتیجہ تھا کہ مغرب میں دنیا کی عورتوں پر جبر کے خلاف باقاعدہ جدوجہد کا آغاز انیسویںصدی میں شروع ہوا ۔
غلام خاندان کی گرمکی سسٹرز کا کردار اس تحریک کے ابتدائی کارکنوں میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ 1840ء میں حقوق نسواں کی پہلی تحریک کا آغاز ہوا جس میں الیزبتھ اسٹییٹن، سوزن اینتھنی اور مٹلڈا گیج کے کردار ناقابل فراموش ہیں۔
کئی عشروں کی تھکا دینے والی جدوجہد کے بعد 1920ء میں تحریک کے نتیجے میں مغربی معاشرے میں خواتین کو حق رائے دہی کا حق حاصل ہوا۔ حقوق نسواں کی دوسری تحریک جنسی ، معاشی ، معاشرتی اور سیاسی برابری کی جدوجہد تھی جو 1960ء میں شروع ہوئی۔ اس تحریک کی سب سے قابل ذکر جیت خواتین کو اسقاط حمل کا حق حاصل کرنا تھا۔
حقوق نسواں کی علمبردار امریکن خاتون بیٹی فریڈین نے 1969ء میں شکاگو میں ہونے والی قومی کانفرنس میں اسقاط حمل کو عورت کا ذاتی فیصلہ قرار دیا۔
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک امریکہ جہاں اسقاط حمل کو 1973ء میں قانونی طورپرجائز قرار دیا گیا تھا۔ پچھلے سال وہیں عورت کو دوبارہ اس کے بنیادی حق سے محروم کردیا گیا ہے۔
اکیسویں صدی میں امریکہ کے اس عورت مخالف فیصلے کو دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ مرد کی عورت پر حاکمیت اورجبر کا دور آج بھی کم و بیش ہر معاشرے میں جاری ہے قطع نظر اسے کہ معاشرہ یا ملک ترقی یافتہ ہے یا پسماندہ ۔
“شام کی تاریکی کے بعد عورتوں کو گھر سے نکلنے پر پابندی لگانے کے بجائے مردوں پر کرفیو لگانا چاہیے۔ ” 1959ء میں اسرائیل میں عورتوں کے ساتھ ریپ کیسز بڑھنے پر کیبینٹ میں اپنے ایک وزیر کو یہ تاریخی جواب دینےوالی گولڈامیئر تھی جو بعد میں وزیراعظم بھی بنیں ۔
دنیا آج اگر عورتوں کے لئے نسبتاً بہتر ہوئی ہے تو تاریخ میں ان خواتین کا کردار ہمیشہ سنہری حروف سے لکھاجائے گا، جو جبر کے خلاف ڈٹ کر کھڑی رہیں۔ اس کے باوجود بالعموم دنیا اور بالخصوص پاکستان میں خواتین کو آج بھی سماجی ، معاشی اور اخلاقی سطح پرامتیازی سلوک کا سامنا آئے دن کرنا پڑتا ہے۔
حال ہی میں پاکستان کے نسبتاً محفوظ دارلحکومت کے ایک پارک میں سرشام ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کے بعد ہمارےکرتا دھرتا اداروں سے لے کر عام آدمی تک کی یہی رائے تھی کہ” خواتین کو رات میں باہر نہیں نکلنا چاہیے”۔ میرا جسم میری مرضی کے نعرے کو بھی ہمارے جیسے معاشرے میں جنسی تسکین کا آلہ کار سمجھا گیا جب کہ یہینعرہ اگر مرد لگائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔
جبکہ یہ نعرہ دراصل ریپ ، کم عمری کی جبری شادیوں کے خلاف اور اپنی مرضی سے ماں بننے یا نہ بننے کے فیصلےکو احترام دینے سے تعبیر ہے۔ عورتوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے حادثات اکثر و بیشتر رونما ہوتے رہتے ہیں۔ عمومی رائے کے مطابق اس میں بھی قصوروار عورت کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود یہ جبر کی وہ قسم ہے جو تقریباً ہر طبقہ کو واضح طور پر عورت کے ساتھ زیادتی کی صورت میں نظر آتی ہے۔
لیکن عورت کے ساتھ ہونے والے وہ جبر وستم، جو رواجوں کے نام پر ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکے ہیں اور فخر کا باعث سمجھے جاتے ہیں، ان کی نشاندہی کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
سوال یہ ہے کہ مرد کے جبر کی سزا عورت کو کیوں دی جاتی ہے؟
عورتوں پر جبر کی داستان بہت طویل ہے۔ ہر ملک ، قوم اور ثقافت میں جبر کی مختلف قسمیں ہیں اور انھیں پدرشاہی معاشرہ عورت کے لئے موزوں اور فائدہ مند سمجھتا ہے۔ حالانکہ وہ مردوں کے لئے سودمند ہوتا ہے نا کہ عورتوں کے لئے۔
عورتوں کو محکوم رکھنے میں ہی ان کی حاکمیت قائم رہ سکتی ہے۔ خواتین کو تعلیم سے دور رکھنا، کم عمری کی شادیاں ، چادر چار دیواری کا پرچار، اسقاط حمل یا مانع حمل کے طریقوں کو ناجائز ٹھہرانا، ملازمت کے بجائےگھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ اور مشترکہ خاندانی نظام کا فروغ انھیں محکوم بنانے میں بہت معاون ثابت ہوئے ہیں ۔
اگر غور کیا جائے تو یہ تمام مفروضات دراصل عورت کی ذات پر جبر ہیں، جو اس کی شخصیت کو کچل دیتے ہیں۔ چونکہ آج کی عورت نا مساعد حالات کے باوجود تعلیم ہی نہیں ہر میدان میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہے، جوہمارے پدر شاہی نظام کے حامیوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس لئے عورت کے عزم کو پسپا کرنا اولین مقصد بن گیا ہے۔
تعلیمی اداروں میں لڑکیوں میں ڈرگز کا استعمال اور جسم فروشی جیسے الزامات بنا ثبوت کے پھیلانے کا مقصد لڑکیوں کوتعلیم اور ملازمت کے بجائے گھر کی چار دیواری میں قید رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ کم عمری کی شادی اور فوراً بچے کی خواہش کے ساتھ ساتھ خاندانی منصوبہ بندی کو گناہ تصور کرنا بھی عورت کی آزادی سلب کرنے کے زمرے میں ہی آتا ہے۔
مشترکہ خاندانی نظام بھی عورت پر مزید ذمہ داریوں کا کا بوجھ ڈالنے کا باعث ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اسکی تخلیقی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔
مخلوط کی جگہ جداگانہ تعلیمی نظام کو فروغ دینا بھی جبر کی ایک قسم ہے کیونکہ اس طرح عورت میں اعتماد کافقدان ہمیشہ حاوی رہتاہے، جو ناصرف ملازمت بلکہ ازدواجی زندگی میں بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ ملازمت میں پراعتماد اور ترقی کرنے والی خواتین کو ہراساں کرنا، ان کی کردار کشی کرنا اور ان کے خلاف محاز بنانابھی ہمارے معاشرے میں اب ایک عام چلن بن چکا ہے۔
میڈیا بھی اس میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ زیادہ تر ڈرامے اس نوعیت کے ہوتے ہیں، جن میں گھریلو عورت کو نیک جبکہ ملازمت پیشہ عورتوں کو شاطر اور چالاک دکھایا جاتا ہے۔ یہ جبر کی وہ پوشیدہ اقسام ہیں جو بظاہر دکھائی نہیں دیتی ہے لیکن پس پردہ ایسی تمام محرکات کا مقصد عورتکو شعور و آگہی سے دور رکھنا ہے۔
عورت نے اپنے بنیادی حقوق کو حاصل کرنے کے لئے کتنے کھٹن مراحل طے کیے ہیں وہ واقعات تاریخ میں ہمیشہ کے لئےرقم ہو گئے ہیں۔ مرد عورت کی برابری پر مشتمل سماج ہی ایک تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ مستقبل ہمیں دے سکتا ہے
اکیسویں صدی میں ملک کی آدھی آبادی کو اب اپنے حقوق حاصل کرنے سے روکنا قطعی دانشمندی نہیں۔ کیونکہ عورت اب جبر کے ہتھیاروں کے خلاف تعلیم ، شعور اور اعتماد سے لیس ہو رہی ہے۔