تحریر: فرمان بیگ
گزشتہ دنوں سب ڈوژن گوجال میں اسسٹنٹ کمشنر کے غیر قانونی غیر اخلاقی حرکت کے خلاف گوجال کے سیاسی کاروباری اور سماجی حلقوں نے بھر پور احتجاج کیا عموماً ہنزہ کے لوگوں کے بارے میں یہ رائے قائم ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے کھڑے نہیں ہوتے اور نہ ہی جدوجہد کرتے ہیں گوکہ کچھ حد تک یہ بات درست بھی ہیں۔
لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ظلم، جبر اور ناانصافی کے خلاف ہنزہ گوجال کے باشندے اٹھتے ہیں اپنے جائز مطالبات اور حقوق کو منوا کر ہی دم لئے ہیں اس میں نہ شک کی گنجائش ہے اور نہ کسی کو غلط فہمی کاشکار رہنا چاہئے۔
اسسٹنٹ کمشنر گوجال کے سوشل میڈیا پر گردش کرتے ویڈیو سے سرکاری آفسران کے اختیارات اور اس کا بے جا استعمال سے لوگوں میں اشتعال پھیلنا ایک فطری امر ہے یہاں تو ان کی روعونیت اور تکبر صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ کس روئے میں گفتگو کرتے ہوئے ریسٹورنٹ کے مالک کو دھمکا رہا ہے جس سے اس کی نیت کا اظہار ہورہا ہے۔
دوسری طرف انہوں نےمکمل تیاری اور سیل کی کمپیوٹر پرنٹ ساتھ لے کر آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ انھوں نے زہنی طور پر ریسٹورنٹ کو سیل کرنا ہی تھا جس سے اس کی نیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا اور اسٹنٹ کشمنر کی اس کی حرکت کو ریکارڈ نہ کی ہوئی ہوتی تو ایک بےگناہ شخص اختیارات میں بد مست ایک سرکاری نوکر کے غیض وغضب کا نشانہ بن چکا ہوتا اور نہ جانے کس مصیبت، تکلیف اور کرب سے گزرتے رہے ہوتے۔
یہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس کے توسط سے سیاسی کارکنان کی بروقت اقدام نے ایک بے گناہ نوجوان کو وقتی طور پر اختیارات میں مست ایک سرکاری ملازم سے بچا لیا ورنہ اس سلف میڈ نوجواں کس کرب اور پریشانیوں سے گزر رہا ہوتا یہ سرکاری اہلکاروں کے عوام کے ساتھ رکھے گئے روئے سے اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔
گو کہ پہلے ہی خطہ گوجال گزشتہ چند سالوں سے نوجوان کے ساتھ رنما ہونے والے واقعات کے کرب کو ابھی تک بھول نہیں پائے ہے وہی اس طرح کے باہمت سیلف میڈ نوجوان علاقے کے دیگر نوجوانوں کے لئے مثال بن رہے ہیں جو اپنی مدد آپ کے تحت چھوٹے موٹے کاروبار کر کے معاشرہ کو حوصلہ دینے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
وہی پر گوجال کے نوجواں ابھی کچھ بہتر کام کرنے کی طرف راغب ہونے لگے ہیں اسی اثنا میں ایک بدمست سرکاری آفسر کے غیر قانونی و غیر اخلاقی حرکات سے نوجوانوں میں مایوسی پھیلنے کا سبب بھی بن سکتا ہیں جو معاشرے کے لئے ایک تکلیف دہ صورت حال پیدا کرنے کاموجب بن سکتا ہے۔
سرکاری افسران کے اس طرح کے رویوں کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے۔ حکومت اور انتظامیہ کو اس طرح کے کردار کے مالک افسران کو قرار واقعی سزا دینی چاہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے غیر قانونی غیر اخلاقی سرگرمیوں کی سدبات ہو اور علاقے کے امن و امان کو برقرار رکھنے کے ساتھ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی، سہولیات اور انہیں مواقع فراہم کرنے کی خاطر سرکاری اور سماجی سطح پر مثبت اقدامات اٹھانے کے ساتھ ان کو بے مقصد تنگ اور راستوں میں رکاوٹ ڈالنے سے اجنتاب کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ضلع ہنزہ میں بیروکریسی ہمیشہ ملک کے دیگر علاقوں سے کیوں بجوائے جاتے ہیں؟ جو یہاں کے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوتے ہوئے مقامی لوگوں کے مزاج، روایات اور دستور کے بر خلاف ایک مطلق عنان بادشاہ کے روئے کے ساتھ ضلع ہنزہ کو کنٹرول کر رہے ہوتے ہے ضلع کے مسائل سے بے نیاز ہو کر حکمرانوں اور بیروکریسی کے مراعات یافتہ اشرافیہ کے خاندانوں کے مہمان نوازی اور ان کے پرٹوکول پر نہ صرف توجہ دیتے ہیں بلکہ ضلع کے وسائل بھی ان پر خرچ ہو رہا ہوتا ہیں جب کہ ضلع ہنزہ چھوٹے چھوٹے مسائل کا قبرستان بنا ہوا ہیں۔
پینے کے لئے صاف پانی نہیں آب پاشی کے لئے کوہلوں کی حالت خستہ حالی کا شکار ہیں علاج معالجہ اور بجلی جیسے بنیادی ضروریات کا فقدان، جب کہ دوسری طرف ضلعی انتظامیہ کی شاہ خرچیاں عروج پر۔
اوپر سے ستم یہ کہ مقامی لوگوں کے انفرادی اور اجتماعی کاروبار پر سرکاری سطح پر مختلف طریقوں سے آپنی انا کی تسکین کے لیے قدغنے لگائی جاتی ہیں جس کی زندہ مثال حسینی سسپنشن بریج پر پابندی ہمارے سامنے ہے۔ جب کہ دوسری طرف غیر مقامی اور بڑے کاروباری اداروں کے نہ صرف انکے کاربار کی تحفظ کی جاتی ہیں بلکہ ان کے لیے وسائل بھی مہیا کیاجاتا اور رکاوٹیں بھی دور کی جاتی ہیں
ڈسٹرک ہنزہ میں انتظامی عہدے کے آفسران کو باہر سے لاکر تعیناتی کا مقاصد واضع نظر آرہا ہیں۔
ہنزہ سیپک کا گیٹ وے ہونے کے ساتھ ابھرتے ہوئےسیاحت کے شعبے سے کاروبارکے مواقعیں پیدا ہورہےہیں ان مواقعوں سے بڑے بڑے سرمایہ کاروں اور باآثر طبقوں کے معاشی مفادات وابستہ ہوتا جارہا ہے جو ابھرتے سیاحت، سرحدی تجارت اور مائینگ کے شعبہ سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہنزہ میں سرمایہ کاری کررہے ہیں جس کی تحفظ کو یقینی بنانے راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور وسائل کی فراہمی کو ممکن بنانے میں مدد گار ثابت ہورہے ہیں۔
مقامی وسائل زمینوں معدنیات پر سرمایہ کاری کے نام پر بڑے بڑے سرمایہ کاروں اور باآثر افراد کےلیے ان وسائل پر قبضے کے لیے قانوانی بنیادیں فراہم کرنے کے ساتھ راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کررہے ہیں۔
حکمران اور باآثر اشرافیہ کے خاندانوں کے افراد کی سیروسیاحت کے لیے سرکاری پرٹوکول اور وسائل کا بے دریغ استعمال روز کا معمول ہے۔