رپورٹ: کریم اللہ
ایک ہفتہ قبل سوشل میڈیا پر خبر پھیل گئی کہ چترال میں مقیم ایک نوجوان نوید اقبال سر کے بال کٹوانے گھر سے باہر چلے گئے اور واپس نہیں آئے ہیں۔ یوں نوید اقبال کے لاپتہ ہونے کی بابت خبریں شائع ہونے لگیں۔
نوید اقبال کو جب ایک ہفتے تک کوئی سراغ نہ ملا تو ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا میں خبریں آنے لگیں اور پولیس و دیگر حکام سے سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے کہ اتنے عرصے میں ایک نوجوان لا پتہ ہے ان کا کوئی سراغ کیوں نہیں مل رہا ہے۔
اس کے اگلے ہی روز خبر آئی کہ ان کی لاش بروز لوئر چترال میں دریا کے کنارے سے ملی ہے یوں نوید احمد سات دن لاپتہ رہنے کے بعد ان کی لاش دریا سے مل گئی۔
اس کے بعد پھر قسم قسم کی باتیں سامنے آنے لگیں۔ اور سوشل میڈیا پر یہ معاملہ تاحال محو گردش ہے۔

چترال سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن طاہر الدین شادان نے اس سلسلے میں یوں لکھا ہے۔
"چھ دن لاش پانی میں رہنے کے باوجود جسم کا کوئی حصہ متاثر نہیں ہوا نہ ہڈی ٹوٹی نہ زخم آئے اور نہ جسم میں کوئی خراش۔
2۔ عینی شاہدین کے مطابق جیسے ہی لاش پانی سے نکالا گیا تو منہ سے خون بہہ رہا تھا ۔ چھ دن تک پانی میں رہنے کے بعد کیا یہ ممکن ہے کہ خون بہتا رہے۔؟
3۔ نوید اقبال کا جسم اور باقی اعضا بالکل ایسے تھے جیسے آخری وقت میں انسان کو سنھبالا جاتا ہے ٹانگیں بالکل سیدھی بازو سیدھے آنکھیں بند منہ بند کیا یہ سب پانی میں بہتے ہوئے ممکن ہے۔؟
4۔ چھ دن میں نوید اقبال کے کپڑے بھی نہیں پھٹے یہاں تک کہ کوئی بٹن بھی نہیں ٹوٹا حالانکہ پانی میں گرنے کے بعد کپڑے جسم پر نہیں رہتے تو چھ دن تک کپڑے جسم پر ویسے ہی رہنا حیران کن ہے۔
شبہہ ہے کہ نوید کو قتل کرکے کہیں چھپایا گیا ہے بعد میں موقع دیکھ کر لاش دریا میں پھینک دی گئی ہے ایک آدھ دن پہلے
یقینا ہمارے ادارے ان تمام پہلوں پر غور کر رہے ہوں گے اور ہمیں یقین بھی ہے کہ ادارے اس اندھے قتل کی تہہ تک پہنچ کر لوگوں میں پھیلی بے چینی ختم کریں گے کیونکہ لوگ سب اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ اچھے خاصے خوشگوار موڈ میں بال کٹوانے کے لئے نکلنے والے بچے کو اچانک کیا ہوگیا کہ اس نے خودکشی کا فیصلہ کر لیا خودکشی کوئی شوق سے نہیں کرتا انسان خودکشی تب کرتا ہے جب اس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچتا نوید اقبال کے سامنے ایسی کوئی بات تھی ہی نہیں تو خودکشی کیوں کرتا چترال میں اس طرح پراسرار طور پر زندگی سے ہاتھ دھونے والوں کی موت کو عموما خودکشی قرار دیا جاتا ہے اور فائل بند کر دیا جاتا ہے ان واقعات پر قابو پانے کے لئے نہایت ضروری ہے کہ ایسے واقعات کی شفاف تحقیقات ہونی چاہئے۔”

اس سلسلے میں تحریک تحفظ حقوق چترال نامی تنظیم کی جانب سے بھی گزشتہ روز ایک احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا گیا جس میں انہوں نے پولیس سے مطالبہ کیا کہ وہ اس اس قتل میں ملوث افراد کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
ذرائع کے مطابق پوسٹ مارٹم رپورٹ ابھی تک نہیں آئی ہے۔ تاہم پولیس اپنی تئین اس مسئلے کی تفتیش میں مصروف ہے۔
اس قسم کے مشکوک اموات چترال میں آئے روز رونما ہوتے آئے ہیں مگر زیادہ تر اموات کو شواہد نہ ملنے کے بہانے فائل کو دبا کر ختم کیا جاتا ہے تاہم بعض کیسز میڈیا میں آنے اور ٹرینڈ بننے کے سبب منطقی انجام تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ جن میں خصوصیات سے اپر چترال بریپ میں چند برس قبل اسلم بیگ نامی نوجوان کے بہمانہ قتل کو چھ سے سات ماہ بعد ان کے قاتلوں کا سراغ مل گیا تھا۔ جن میں بھی اہم و کلیدی کردار میڈیا کا رہا ہے۔
اب نوید اقبال کی حالیہ مشکوک خود کشی بھی اپنے پیچھے نہ صرف کئی اقسام کے سوالات کو جنم دے رہا ہے بلکہ یہ چترال پولیس کے لئے ایک ٹسٹ کیس بھی ہے۔