Baam-e-Jahan

ہنزہ حسین خوابوں کا سراب


تحریر: کریم اللہ

ہنزہ اپنی ثقافتی ورثے اور قدرتی حسن کی وجہ سے ساری دنیا میں مشہور ہے۔ ہنزہ کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچانے میں یہاں کے لوگوں بالخصوص خواتین کا کلیدی کردار ہے۔ ثقافت و ادب اور قدرتی حسن سے مالا مال اس وادی میں  سالانہ لاکھوں کے حساب سے سیاح آتے ہیں۔

سوست چپورسن وفد کا سینئر وزیر گلگت بلتستان کرنل (ر) عبید اللہ بیگ سے ملاقات ۔ بجلی نہ ہونے کے باعث موبائل سے روشنی کا انتظام کیا گیاہے

ہنزہ بنیادی طور پر تین حصوں یعنی بالائی ہنزہ، مرکزی ہنزہ اور زرین ہنزہ پر مشتمل ہے۔ بالائی ہنزہ کی اکثریتی آبادی وخی، مرکزی ہنزہ کی اکثریت بروشسکی اور زرین ہنزہ کے لوگ شینا زبان بولتے ہیں۔

ہنزہ کے ان تینوں حصوں میں شرح خواندگی بہت زیادہ ہے بلکہ نوے فیصد سے بھی زیادہ بتائی جارہی ہے۔ آج تک ہنزہ کے متعلق جتنے قصے کہانیاں ہم نے میڈیا  پہ سن رکھے ہیں وہ سب اپنی جگہ درست بھی ہو سکتی ہے  اور ہنزہ کے لوگوں نے اپنے علاقے کو اس طرح پیش کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے ہیں  جو بہت سارے لوگوں کے لئے خوابوں کے جنت سے کم نہیں۔ مگر کیا حقیقتا ہنزہ وہ ہے جو سیاحوں اور بعض رائیٹر خصوصا سماجی ویب سائیٹ پر لکھنے والوں نے پیش کیا۔؟

اس وقت اپر ہنزہ چپورسن اور شمشال کے باسی نو روڈ نو ووٹ کا نعرہ لگا کر احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کیونکہ بالائی ہنزہ بالخصوص شمشال کے لئے انتہائی پر خطر ترین سڑک کی تعمیر یہاں کے مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کیا تھا جو گزشتہ تین چار دھائیوں  سے اسی صورت میں موجود ہے سرکار نے اس سڑک کی تعمیر و توسیع کے لئے ابھی تک کچھ نہیں کیا ہے۔

یہاں پر یا تو بجلی کا نظام سرے سے موجود ہی نہیں یا پھر لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایسے بجلی گھر تعمیر کی ہے جو محض بلب روشن کر سکتے ہیں اس سے آگے کسی کام کی گنجائش موجود نہیں۔

چپورسن کے مرد و خواتین نو روڈ نو ووٹ کا نعرہ لگا کر احتجاج کر رہے ہیں

تعلیم اور صحت کے لئے این جی اوز نے ادارے تعمیر کئے ہیں سرکار کی جانب سے کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے۔

بالائی ہنزہ کے لوگوں کو سرکار نے ہر دور میں نظر انداز رکھا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

مرکزی ہنزہ کی صورت حال:

مرکزی ہنزہ جو ریاست ہنزہ کا پایہ تخت بھی رہا ہے یہاں کے اکثریتی لوگ بروشسکی زبان بولتے ہیں، ریاست ہنزہ کے دور میں بھی اقتدار یہاں کے لوگوں (ریاست ہنزہ کے حکمرانوں اور دوسرے مراعات یافتہ طبقے کی غالب اکثریت بروشو لوگوں کی تھی)  کے ہاتھوں میں تھی اور جدید دور میں بھی انتخابات میں یہاں کے ٹکٹ ہولڈرز کامیاب ہو جاتے ہیں۔

 اس کے علاوہ مرکزی ہنزہ سیاحت کا بھی مرکز رہا ہے مگر بدقسمتی کا مقام یہ ہے کہ بالائی ہنزہ کی طرح مرکزی ہنزہ بھی بنیادی ضروریات جیسا کہ پینے کے صاف پانی، نکاس آب اور بجلی سے محروم ہے۔ دن میں صرف دو گھنٹوں کے لئے بجلی نمودار ہوتے ہیں اس کے بعد غائب۔

اپر ہنزہ کے باسیوں کا احتجاجی مظاہرہ

بالائی ہنزہ میں پھر بھی عوام کہیں نہ کہیں اپنے حقوق کے لئے احتجاج تو کرتے ہیں مگر مرکزی ہنزہ سے کبھی احتجاج کرتے یا اخباری بیان تک دیتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا گیا ہے۔ جبکہ ہر بندہ اپنے گھر میں جنریٹر لگا کر دنیا و مافہا سے بے خبر اپنے آپ میں مگن ہے یہی وجہ ہے کہ ہنزہ میں پن بجلی کے وسیع تر مواقع ہونے اور سیاحت کا گھڑ ہونے کے باؤجود بھی بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہے اور اس محرومی پر بھی یہاں کے عوام ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے