تحریر: ڈاکٹر مبارک علی
تاریخ میں جب بھی جنگوں کا ذکر آتا ہے تو ان میں فاتحین یا تو بادشاہ ہوتا ہے یا فوجی جرنیل۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ میں عام فوجیوں کو فاتح قرار دیا جائے کیونکہ بادشاہ یا جرنیل گھمسان کی جنگ میں حصہ نہیں لیتے تھے۔
عام طور پر ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ جنگ میں فتح بادشاہ یا فوجی جرنل کی حکمت عملی سے ہوئی تھی۔ لیکن وہ عام فوجی جنہوں نے لڑائی میں حصہ لیا تھا زخمی ہوئے تھے اور مارے گئے تھے، ان کا ذکر تاریخ میں نہیں آتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ جنگ میں دس ہزار یا پندرہ ہزار فوجی مارے گئے۔ جنگ کی فتح میں ان کو شریک نہیں کیا جاتا ہے۔
اگر ان فوجیوں کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ فوجی خدمت کے دوران انہوں نے کتنی تکلیفیں برداشت کی تھیں اور زندگی کی بے شمار سہولتوں سے محروم رہے تھے۔ مثلاً یونان جب کسی ملک پر حملہ کرتا تھا تو فوجی لشکر دور دراز کے علاقوں میں جا کر جنگ کرتے تھے۔ یہ اپنے گھر اور خاندان سے جدا ہو جاتے تھے۔ مہینوں اور سالوں ان سے کوئی رابطہ نہیں رہتا تھا۔ جب لشکر واپس آتا تھا تو اس وقت ان کے گھر والوں کو پتہ چلتا تھا کہ ان کے مرد زندہ ہیں یا مارے گئے
اگر ان فوجیوں کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ فوجی خدمت کے دوران انہوں نے کتنی تکلیفیں برداشت کی تھیں اور زندگی کی بے شمار سہولتوں سے محروم رہے تھے۔ مثلاً یونان جب کسی ملک پر حملہ کرتا تھا تو فوجی لشکر دور دراز کے علاقوں میں جا کر جنگ کرتے تھے۔ یہ اپنے گھر اور خاندان سے جدا ہو جاتے تھے۔ مہینوں اور سالوں ان سے کوئی رابطہ نہیں رہتا تھا۔ جب لشکر واپس آتا تھا تو اس وقت ان کے گھر والوں کو پتہ چلتا تھا کہ ان کے مرد زندہ ہیں یا مارے گئے۔ اس کی ایک مثال ٹرائے کی جنگ ہے، جس کے بعد جب یونانی فوجی واپس آئے تو انہیں بدلی ہوئی دنیا ملی۔
فوجیوں کی زندگی کا یہ سلسلہ پوری تاریخ میں جاری رہا۔ اگرچہ جنگیں حکمران طبقے کے مفادات میں ہوتی تھیں مگر عام فوجیوں کو کبھی مذہب اور کبھی عزت اور غیرت کے نام پر قربان کر دیا جاتا تھا۔ اہل اسپارٹا عزت کے نام پر جنگ میں لڑتے ہوئے مرنا پسند کرتے تھے اور فرار ہونا ان کی بے عزتی ہوتی تھی۔ ہندوستان میں راجپوت جب اپنی شکست دیکھتے تھے تو جوہر کی رسم ادا کرتے تھے۔ اپنے بیوی بچوں کو قتل کر کے زعفرانی لباس پہن کر مرتے دم تک لڑتے تھے۔
تاریخ میں اسکندر اور جولیس سیزر کو گریٹ بنانے کے عمل میں عام فوجیوں کا حصہ تھا، جنہوں نے جنگیں لڑ کر فتوحات کو ان سے منسوب کر دیا۔ 1812ء میں جب نپولین نے ایک بڑی فوج اکٹھی کر کے روس پر حملہ کیا۔ وہ ماسکو تک تو پہنچ گیا مگر جب روس نے ہتھیار نہیں ڈالے تو وہ واپس پلٹا لیکن شدید برف باری اور روسی فوج کے حملوں نے اس کے لشکر کو تباہ و برباد کر دیا۔ فوج کو دشمن کے نرغے میں چھوڑ کر واپس آ گیا۔ 1814ء اور 1815ء میں جب اسے دوبارہ یورپی ملکوں سے جنگیں لڑنا پڑیں تو اس نے زبردستی صحت مند جوانوں کو فوج میں بھرتی کیا۔
جب یورپی ملکوں نے ایشیاء اور افریقہ میں فتوحات کیں تو ان کے فوجی بھی سات سمندر پار کر کے یہاں آئے۔ ان ملکوں کی آب و ہوا ان کے لئے ناقابل برداشت تھی۔ موسم کی سختیوں اور وباؤں نے ان کی جانیں لے لیں، مگر اُن کی قربانیوں کی بدولت یورپ کے سامراجی ملکوں نے اپنا سیاسی تسلط قائم کیا اور مقبوضہ کالونیز اور ذرائع کو لوٹا۔ اس لوٹ کا زیادہ حصہ حکمران طبقوں میں آیا اور عام فوجیوں کو تھوڑا بہت دے کر ان پر احسان کیا گیا۔
تاریخ میں اسکندر اور جولیس سیزر کو گریٹ بنانے کے عمل میں عام فوجیوں کا حصہ تھا، جنہوں نے جنگیں لڑ کر فتوحات کو ان سے منسوب کر دیا۔ 1812ء میں جب نپولین نے ایک بڑی فوج اکٹھی کر کے روس پر حملہ کیا۔ وہ ماسکو تک تو پہنچ گیا مگر جب روس نے ہتھیار نہیں ڈالے تو وہ واپس پلٹا لیکن شدید برف باری اور روسی فوج کے حملوں نے اس کے لشکر کو تباہ و برباد کر دیا۔ فوج کو دشمن کے نرغے میں چھوڑ کر واپس آ گیا۔ 1814ء اور 1815ء میں جب اسے دوبارہ یورپی ملکوں سے جنگیں لڑنا پڑیں تو اس نے زبردستی صحت مند جوانوں کو فوج میں بھرتی کیا۔
انگلستان میں بھی یہ دستور تھا کہ لوگ بحریہ کی ملازمت سے دور بھاگتے تھے۔ کیونکہ جہاز کی زندگی انتہائی تکلیف دہ تھی۔ کھانے پینے کی مشکلات تھیں۔ ذرا سی غلطی پر سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ بحری جنگوں میں مرنے والوں کو سمندر میں پھینک دیا جاتا تھا۔ اس وجہ سے نوجوانوں کو اغوا کر کے جہازوں پر لے جاتے تھے، جہاں سے فرار ہونا بھی ممکن نہیں تھا۔ عام سیلرز کو اس قربانی کا کوئی صلہ نہیں ملتا تھا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ میں عام فوجیوں کو فاتح قرار دیا جائے کیونکہ بادشاہ یا جرنیل گھمسان کی جنگ میں حصہ نہیں لیتے تھے۔ یہ عام فوجی ہوتے تھے، جو بہادری سے لڑتے ہوئے حکمرانوں کو فتح یاب کرتے تھے۔ انہیں فتح کی کامیابی میں شریک کرنا ضروری ہے تاکہ وہ محض گمنام فوجی نہ رہیں اور اجتماعی طور پر ان کے کارناموں کو تاریخ کا حصہ بنا کر انہیں عزت و عظمت دینا بھی ضروری ہے۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے دوران ہندوستان کی انگریز حکومت نے جاگیرداروں کی مدد سے گاؤں کے صحت مند نوجوانوں کو زبردستی فوج میں بھرتی کروایا اور پھر انہیں یورپ میں جنگی محاذوں پر بھیج دیا۔ پہلی عالمی جنگ میں یہ فوجی خندقوں میں رہ کر جنگ کرتے تھے۔ سرد موسم اور بارش کی وجہ سے خندوں میں پانی بھر جاتا تھا۔ ہندوستان کے فوجیوں کے لئے یہ آب و ہوا ناقابل برداشت تھی۔ جنگ میں مرنے والے ہندوستانی فوجیوں کو وہیں دفن کر دیا گیا۔ ان کے خاندان والوں کو بعد میں اطلاع ملی کہ وہ زندہ نہں رہے ۔ یہ وہ جنگ تھی کہ جس سے ہندوستانیوں کو کوئی واسطہ نہ تھا۔ انگلستان کی حکومت نے انہیں اپنے سیاسی مفادات کی خاطر استعمال کیا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عام لوگ کیوں فوجی service اختیار کرتے تھے اور کیوں وہ حکمران طبقوں کے مفادات کی خاطر جانیں دیتے تھے۔ جدید دور میں قوم پرستی اور وطن کے نام پر لوگوں کے جذبات کو اُبھارا جاتا تھا۔ ان میں بہادری اور شجاعت کے جذبات پیدا کرنے کے لئے جنگ میں کارنامے سرانجام دینے پر تمغے دئیے جاتے تھے۔ جیسے برطانیہ وکٹورین کراس کا تمغہ کسی بہادر جنگجو کو دیتی تھی۔ اس کے علاوہ چونکہ فوجیوں کی بڑی تعداد جنگ میں جان دے دیتی تھی۔ اس لئے ان کی یاد میں یادگاریں تعمیر کرتے تھے اور ایک انجانے سولجر کا مجسمہ بنا کر اسے بطور علامت مرنے والے فوجیوں کا نمائندہ کہہ کر اس پر پھول نچھاور کرتے تھے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ میں عام فوجیوں کو فاتح قرار دیا جائے کیونکہ بادشاہ یا جرنیل گھمسان کی جنگ میں حصہ نہیں لیتے تھے۔ یہ عام فوجی ہوتے تھے، جو بہادری سے لڑتے ہوئے حکمرانوں کو فتح یاب کرتے تھے۔ انہیں فتح کی کامیابی میں شریک کرنا ضروری ہے تاکہ وہ محض گمنام فوجی نہ رہیں اور اجتماعی طور پر ان کے کارناموں کو تاریخ کا حصہ بنا کر انہیں عزت و عظمت دینا بھی ضروری ہے۔