تحریر: کریم اللہ
چترال اور گلگت بلتستان میں پڑھے لکھے نوجوان خود کشی کرکے اپنی زندگیوں کا چراغ گل کر رہے ہیں اور اس میں روز بروز اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس سلسلے میں سرکار اور غیر سرکاری ادارے سیمینارز، ورکشاپس اور اعلامئے تو جاری کر دیتے ہیں مگر تاحال اس مسئلے پر نہ تو جامع تحقیق ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی بڑا قدم اٹھایا گیا ہے۔
2018ء کو جب خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا نے اس مسئلے پر کام کرنے کی یقین دہائی کرائی بیانات سامنے آئے نام نہاد اسٹیک ہولڈرز کے اجلاس ہوئے ایک آدھ سیمینارز بھی کئے گئے پھر اس معاملے کو سب بھول گئے۔
اس سلسلے میں غذر سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکنوں نے گزشتہ سال غذر میں ہونے والی خود کشیوں کے حوالے سے ایک گرینڈ محرکہ کا انعقاد کیا تھا جس میں بڑی تعداد میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوئے۔ اور اس ایشو کو بڑے پیمانے پر اٹھایا گیا۔
مگر چترال میں صرف روایتی بیان بازی سے آگے یہ معاملہ نہ بڑھ سکا۔
2018ء کو جب خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا نے اس مسئلے پر کام کرنے کی یقین دہائی کرائی بیانات سامنے آئے نام نہاد اسٹیک ہولڈرز کے اجلاس ہوئے ایک آدھ سیمینارز بھی کئے گئے پھر اس معاملے کو سب بھول گئے۔
گزشتہ دنوں بلیک ہول اسلام آباد میں چترال اور گلگت بلتستان میں خود کشیوں کی وجوہات کو جاننے اور سمجھنے کے حوالے سے غذر اور چترال سے تعلق رکھنے والے نوجوان محقیقیں اور سماجی کارکنان کی ایک بیٹھک ہوئی۔ جس میں اس ایشو کے مختلف پہلووں پہ بات کی گئی۔
غذر سے عنایت بیگ جو کہ گرینڈ محرکہ کو لیڈ بھی کر رہے تھے وہ اس گفتگو میں شامل تھے جبکہ ان کے ساتھ ماہر ماحولیات افشان شاہ جبکہ چترال سے لیکچرر ظفر احمد شریک تھے۔ یہ پروگرام اپنی نوعیت کا بہترین پروگرام تھا جس میں اس ایشو کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی۔ مگر چترال میں خود کشیوں کے حوالے سے بعض پہلو پھر بھی تشنہ لب رہے۔ ان میں سے چند ایک کو یہاں زیر بحث لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
1۔ سماجی تبدیلی:
چونکہ چترال اور گلگت بلتستان ہزاروں برسوں سے الگ تھلک خطہ رہا ہے پاکستان سمیت دنیا کے دیگر حصوں میں رونما ہونے والے واقعات کا ان پہاڑی خطوں پر اثرات بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے۔
مگر اسی کی دہائی کے بعد ان پہاڑی خطوں میں این جی اوز کا ظہور ہوا ان این جی اوز نے یہاں سماجی و معاشی، تعلیمی و صحت کے شعبے کی ترقی میں بے پناہ کام کیا اور یوں ان معاشروں میں سماجی ترقی کا سفر انتہائی تیز سے تیز تر ہوتے گئے۔ اس کے ساتھ ہی یہاں تعلیم کو فروغ دیا گیا بلکہ تعلیم کو سارے مسائل کا حل بنا کے پیش کیا گیا۔ جبکہ یہاں کے قدیم الایام سے چلے آنے والے سماجی و اقتصادی نظام کو بھی درہم برہم کیا گیا۔
اسی کی دہائی کے بعد ان پہاڑی خطوں میں این جی اوز کا ظہور ہوا ان این جی اوز نے یہاں سماجی و معاشی، تعلیمی و صحت کے شعبے کی ترقی میں بے پناہ کام کیا اور یوں ان معاشروں میں سماجی ترقی کا سفر انتہائی تیز سے تیز تر ہوتے گئے۔ اس کے ساتھ ہی یہاں تعلیم کو فروغ دیا گیا بلکہ تعلیم کو سارے مسائل کا حل بنا کے پیش کیا گیا۔ جبکہ یہاں کے قدیم الایام سے چلے آنے والے سماجی و اقتصادی نظام کو بھی درہم برہم کیا گیا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا یہ نوجوان روایتی تعلیم پہ تعلیم حاصل کرتے رہے ان میں بعض نے بڑی اچھی ملازمتیں انہی این جی اوز اور سرکاری اداروں میں حاصل کی۔ ان کی دیکھا دیکھی سارے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم اور ملازمت کے دوڑ میں لگا دیا۔ بچوں اور بچیوں پر اچھے نمبروں، اچھی ملازمتوں، نوکریوں اور اسٹیٹس کا دباؤ بڑھتا گیا، یوں نوجوانوں کی ایسی کھیپ تیار ہوئی جنہیں سکول میں داخلہ کرواتے ہی والدین اور گھر والے ان سے بڑی بڑی تواقعات وابسطہ کی جانے لگیں۔ سکول میں ٹاپ پوزیشن کا حصول، کالج میں اچھے نمبرز، پھر ڈاکٹر و انجینئر بننے کا دباؤ اور آخر میں یونیورسٹی سے فارع ہونے کے بعد گولڈ میڈل کے ساتھ اچھی نوکری کا حصول۔
یوں نوجوان نسل کو جس دوڑ میں لگا دیا گیا اس دوڑ میں اکثر نوجوان کامیاب نہیں ہو پا رہے تھے اسی لئے ان میں فریسٹریشن بڑھنے لگیں اور حالات یہ پیدا ہوگئی ہے کہ جس دن میٹرک یا انٹر کے امتحانی نتائج آتے ہیں اسی دن خود کشیوں کے خبریں بھی میڈیا میں آنی شروع ہو جاتی ہے۔
بچوں اور بچیوں پر اچھے نمبروں، اچھی ملازمتوں، نوکریوں اور اسٹیٹس کا دباؤ بڑھتا گیا، یوں نوجوانوں کی ایسی کھیپ تیار ہوئی جنہیں سکول میں داخلہ کرواتے ہی والدین اور گھر والے ان سے بڑی بڑی تواقعات وابسطہ کی جانے لگیں۔ سکول میں ٹاپ پوزیشن کا حصول، کالج میں اچھے نمبرز، پھر ڈاکٹر و انجینئر بننے کا دباؤ اور آخر میں یونیورسٹی سے فارع ہونے کے بعد گولڈ میڈل کے ساتھ اچھی نوکری کا
ایسے میں نوجوانوں کو ہنر سیکھانے اور نوکریوں کے تجسس سے نکال کر کاروبار کروانے کی بھی کوئی کوشش نہ ہوئی اور نہ اب اسی جانب کوئی توجہ دی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں تعلیم یافتہ بے روزگاروں کا بڑا کھیپ تیار ہوچکے ہیں اور معاشرے میں فریسٹریشن بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ اس سب میں میڈیا کا کتنا کردار ہے۔۔؟ اور دیگر وجوہات کیا ہوسکتی ہے اس پر اگلی قسط میں بات کریں گے۔
کریم اللہ چترال سے تعلق رکھنے والے صحافی و کالم نویس اور وی لاگر ہے۔ وہ چترال اور گلگت بلتستان کے سماجی و معاشی مسائل و مشکلات اور روزمرہ کے واقعات پر لکھتے ہیں۔ جبکہ وہ بام دنیا کے ساتھ بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔
