Baam-e-Jahan

موسمیاتی تبدیلی، گلگت بلتستان پر اس کے اثرات

فرمان بیگ

تحریر: فرمان بیگ


پاکستان کے بدلتے موسمیاتی تبدیلی سے گلگت بلتستان سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہیں جہاں گلیشیائی جھیلوں، بے موسم بارشوں اور برفباری سے دریائی سیلاب  اور لینڈ سلائلڈنگ کے خطرات اس وقت کئی گنا بڑھ گئی ہے جب کہ دوسری جانب گلگت بلتستان سیاسی طرز حکمرانی کے اعتبار سے نہ صرف انتہائی کمزور ہے بلکہ طاقتور اشرافیہ اور باآثر سرمایہ کاروں کے معاشی اور کاروباری مفادات  کوتحفظ دینے کے لئے کلونیل طرز کے اقدامات  بیرکرویسی کے ذریعے کئے جا رہے ہیں۔ وہی موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ  متاثرہ خطے کے ایکالوجی  اور ماحولیات کی تباہی  کو سرمایہ کاری کے نام پر  یہاں بسنے والے افراد اور حیاتیاتی تنوع کو  شدید خطرے سے دوچار کی جا رہی ہے۔  

 کمزور حکومتی ڈھانچہ اور کمزور طرز حکمرانی کی وجہ سے گلگت بلتستان کے ایکالوجی اور ماحولیات  ایک طرح سے زوال کی جانب رواں دواں ہے جہاں ماحولیاتی آلودگی سماجی و اقتصادی ناانصافی اور سیاسی مسائل مزید گمھبیر ہوتے  جا رہے ہیں وہی دوسری جانب موسمیاتی تبدیلیوں اور آفات کے حوالے سے عوامی سطح پر بے خبری اور لاشعوری خطے کے قدرتی ماحول کے خطرات کو مزید بڑھا رہی ہے۔

گلگت بلتستان جہاں ایک کلونیل نظام حکومت کے تحت قدرتی وسائل کو لوٹنے کے خاطر مراعات یافتہ اشرافیہ طبقے ان وسائل پر  قبضہ گیری کے لئے بیرکرویسی اور غیر سرکاری اداروں کے ذریعے نت نئے حربے استعمال کرنے کی کوشش جاری ہے جس میں مجوزہ جی بی لینڈ ریفامز بل قابل ذکر ہے۔

موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ  متاثرہ خطے کے ایکالوجی  اور ماحولیات کی تباہی  کو سرمایہ کاری کے نام پر  یہاں بسنے والے افراد اور حیاتیاتی تنوع کو  شدید خطرے سے دوچار کی جا رہی ہے۔  

  گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبران اور حکومت  مرکز سے بیجھے گئے بیروکریسی اور  حکمران وفاقی سیاسی پارٹیوں کے مراعات یافتہ طبقے کے ہاتھوں یرغمال ہے وہی گلگت بلتستان کے مقامی باشندوں کے مفادات ایکالوجی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا صورت حال کی روک تھام کے لئے قانون سازی کا فقدان ہے۔ 

کلونیل طرز حکمرانی گلگت بلتستان کو درپیش موحولیاتی، سیاسی، سماجی اور اقتصادی چیلنجوں کو ظاہر کرتا ہے  گزشتہ پچھتر سالہ دور حکمرانی میں لوگوں کے جمہوری سیاسی حقوق کو سلب کرنے، نمائشی اسمبلی کے ممبران کے عوامی حقوق کی تحفظ کے بجائے پاکستان کے حکمران طاقتور اشرافیہ کے معاشی مفادات کے محافظ کے طور پر نظر آتے ہیں بڑھتے  موسمیاتی تبدیلی کا حکومتی ترجیحات میں شامل  نہ ہونا ذاتی اور وقتی  مفادات کے حصول، انتظامی صلاحیت  اور گلگت بلتستان کی مجموعی قومی سوچ کی کمی سے گلگت بلتستان کے موحولیاتی،  سیاسی، سماجی اور معاشی صورت حال کی ابتری کو مزید نمایاں کرتا ہیں۔

ریاست پاکستان کی موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق پالیسیوں کے جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سارے بین الاقومی معاہدات میں پاکستان ایک دستخط کنندہ ہے۔

 قدرتی ماحولیات کی حفاظت کے لئے عالمی سطح پر بہت سے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں جن میں بدلتے موسموں سے پیدا خطرات کی روک تھام کے اقدام کے لئے پیرس معاہدے کے تحت پاکستان کلائمیٹ چینج سے نمٹنے کے قومی ذمے داریاں

NDCsاور اقوام متحدہ کے کنونشن ان کلائیمیٹ چینج

UNFCCC کا قومی منصوبہ  NAPsکے  دستخط کنندہ ہونے کے ناطے مکمل طور پر بدلتے موسموں کے اثرات  پسماندہ خطوں اور طبقات کو قدرتی آفات سے بچاؤ کے لئے  اقدامات کرنا لازمی ہے

کلونیل طرز حکمرانی گلگت بلتستان کو درپیش موحولیاتی، سیاسی، سماجی اور اقتصادی چیلنجوں کو ظاہر کرتا ہے  گزشتہ پچھتر سالہ دور حکمرانی میں لوگوں کے جمہوری سیاسی حقوق کو سلب کرنے، نمائشی اسمبلی کے ممبران کے عوامی حقوق کی تحفظ کے بجائے پاکستان کے حکمران طاقتور اشرافیہ کے معاشی مفادات کے محافظ کے طور پر نظر آتے ہیں بڑھتے  موسمیاتی تبدیلی کا حکومتی ترجیحات میں شامل  نہ ہونا ذاتی اور وقتی  مفادات کے حصول، انتظامی صلاحیت  اور گلگت بلتستان کی مجموعی قومی سوچ کی کمی سے گلگت بلتستان کے موحولیاتی،  سیاسی، سماجی اور معاشی صورت حال کی ابتری کو مزید نمایاں کرتا ہیں۔

 چونکہ پاکستان جنوبی ایشیا کے سب سے زیادہ قدرتی آفات کا شکار ممالک میں سرفہرست ہونے کی وجہ سے  The Hyogo Framework for Action (HFA) پر دستخط کرکے اس بات کو اصولی طور پر مانا ہے کہ قدرتی آفات سے پیدا صورت حال یعنی کمزور ترین طبقوں جو اس آفات سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں ان کی بحالی اور موسمیاتی تبدیلی پیدا کرنے والے عوامل کی روک تھام کرنا شامل ہے۔

 لیکن کیا وجہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق کام کرنے والے  ادارے مرکزی اور گلگت بلتستان کی حکومتیں جی بی میں گمھبیر ماحولیاتی مسائل درپیش ہونے کے باوجود خطے میں مزید ماحول دشمن سرگرمیوں کی پشت پناہی کرنے پر مجبور ہے؟ ان ماحولیاتی اداروں اور جی بی حکومت کو اپنے اہداف اور موسمیاتی تبدیلی کو کم کرنے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کی وضاحت کرنی ہوگی یہ بتانا ہوگا  کہ سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی کے زد میں واقع خطے میں معدنیات کی کان کنی اور سرمایہ کاری کے نام پر ماحول دشمن سرگرمیوں کو کیوں ترجیح دی جارہی ہے؟

بے ہنگم سیاحت کے فروغ کے لئے وہ کونسی قوانیں ہیں جو ماحولیات اور ایکالوجی کی تحفظ کے لئے موجود قوانین کی عمل درآمد میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے؟

 پہاڑوں کو سر کرنے کے شوقیں کوہ پیماؤں  اور دفاعی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے  ماحولیاتی آلودگی سے گلیشئر کے پگھلنے کے عمل کو روکنے کے لئے کونسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟

بے ہنگم سیاحت میں استعمال ہونے والے ٹرانسپورٹ سے پیدا آلودگی کو کم کرنے کے لئے کیا کیا اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ؟

یہ  وہ سوالات ہے جو ہر ذی شعور فرد  جاننا چاہتا ہیں  لہذا  خطے میں بڑھتے موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق آفات پر قابو پانے کے لئے گلگت بلتستان کی  سطح پر چند بنیادی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔

روایتی کالونیل طرز حکمرانی اور پاکستان کے طاقت ور اشرافیہ کے کاروباری مفادات کی تحفظ کے بجائے گلگت بلتستان میں بسنے والے باشندوں اور یہاں کے قدرتی ماحول، حیاتیاتی تنوع اور ایکالوجی کو بچانے کے لئے بین الاقوامی سطح پر کئے گئے معاہدات پر من عن  عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہیں۔

  گزشتہ تین عشروں سے جاری جنگلی جانوروں  کی تحفظ طرز کے اقدامات  کمیونٹی کے ذریعےکرنے کے لئے ضروری مالی اور تیکنیکی مدد فراہم کر کے ماحولیاتی تبدیلیوں پر مبنی آفات کے خطرے میں کمی کے لئے اقدامات کئے جاسکتے ہیں ۔

  گزشتہ تین عشروں سے جاری جنگلی جانوروں  کی تحفظ طرز کے اقدامات  کمیونٹی کے ذریعےکرنے کے لئے ضروری مالی اور تیکنیکی مدد فراہم کر کے ماحولیاتی تبدیلیوں پر مبنی آفات کے خطرے میں کمی کے لئے اقدامات کئے جاسکتے ہیں ۔

گلگت بلتستان کے ایکالوجی کو بچانے کے لئے ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے والے عناصر خصوصا کان کنی اور بےہنگم ٹرانسپورٹ پر پابندی عائد کرنے ،ماحول دوست گرین انرجی کے لئے قانون سازی جیسے اقدامات کرنا ہوگا۔

 سیاحت کے فروغ کے نام پر بے ہنگم کنکریٹ کے تعمیرات پر پابندی عائد کرتے ہوئے خطے کے ماحول سے مطابقت رکھنے والے طرز تعمیر کے لئے قانون سازی کئے جائے۔

گلگت بلتستان کے ڈیموگرافی کی تبدیلی کو روکنے کے لئے ایس ایس آر کو فوری طور پر لاگو کیاجائے۔

مصنف کے بارے میں:

فرمان بیگ سماجی کارکن اور لکھاری ہے۔ سماجی و ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے وہ ریگولر بنیادوں پر لکھتے ہیں

فرمان بیگ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے