Baam-e-Jahan

اصل مجرم کون ہے؟

حیدر جاوید سید

تحریر: حیدر جاوید سید


مخدوم شاہ محمود قریشی کی گرفتاری کی خبر گزشتہ روز نشر ہوئی پھر اڑھائی تین گھنٹے بعد پتہ چلا کہ جسے بعض صحافیوں نے گرفتاری سمجھا تھا وہ اصل میں ان کا اسلام آباد میں موجود گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ خالد خورشید کے ذاتی محافظ دستے کے کمانڈوز کے ہمراہ ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل ہونا تھا۔

 بہرحال اب صورت حال یہ ہے کہ مخدوم شاہ محمود قریشی جی بی ہاؤس اسلام آباد سے جمعرات کی صبح گرفتار کر لئے گئے۔ وہ گزشتہ سہ پہر  سے وہیں مقیم تھے وہی نہیں بلکہ جی بی ہاؤس میں پناہ لئے ہوئے پی ٹی آئی کے بہت سارے قائدین بھی گرفتار کر لئے گئے ہیں ان میں مسرت چیمہ اور ان کے شوہر کے علاوہ ملیکہ بخاری بھی شامل ہیں۔

فواد چودھری بدھ اور جمعرات کی شب کے درمیانی حصہ میں سپریم کورٹ کے باہر اس وقت گرفتار ہوئے جب وہ سپریم کورٹ بلڈنگ کی سکیورٹی پر مامور عملے کی جانب سے ’’رخصت‘‘ کئے گئے۔ وہ بدھ کو دن کے ساڑھے گیارہ بجے سے سپریم کورٹ بلڈنگ میں موجود تھے اور پولیس بلڈنگ کے باہر ان کی منتظر۔

اس دوران انہوں نے متعدد بار اخبار نویسوں کی اجتماعی بات چیت کی  متعدد کو انٹرویو بھی دیئے۔ روایتی انداز میں جملے بازی کے دوران وہ سوال کرنے والے بعض صحافیوں پر طنز بھی کرتے رہے ایک مرحلہ پر وہ ہتھے بھی اکھڑے جب ایک ستم ظریف صحافی نے ان سے پوچھا ’’اگر گرفتار ہوئے تو پچھلی گرفتاری کے دنوں کی طرح آنسو تو نہیں بہائیں گے؟‘‘

فواد بولے تمہیں یہ سوال کس نے لکھ کر دیا ہے۔ تلخی ہاتھا پائی میں تبدیل ہونے کے امکان کو بھانپ کر کچھ لوگوں نے مداخلت کی معاملہ رفع دفع ہوگیا لیکن فواد اونچی آواز میں بولتے کہتے رہے۔

’’میں تمہیں اور سوال دینے والے دونوں کو دیکھ لوں گا۔

ملک کے بڑے شہروں میں عسکری  املاک کے علاوہ ریڈیو پاکستان پشاور،  اے پی پی پشاور آفس جلانے اور دیگر مقامات پر جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار کرنے والے افراد کی دستیاب ویڈیوز کی بنیاد پر اور نادرا کے ذریعے شناخت کرلی گئی ہے۔

اطلاع یہ ہے کہ 2720 افراد کی شناخت کے ساتھ ان کے کوائف حاصل کر لئے گئے ہیں۔ پچھلے دو دن سے پی ٹی آئی کے کارکنوں اور بلوائیوں کے خلاف مقدمات کا اندراج جاری ہے۔

گزشتہ روز انکشاف کیا گیا کہ لاہور میں کور کمانڈر کی پرانی قیام گاہ ’’جناح ہائوس‘‘ پر ہجوم کے حملے کے وقت گھر پر موجود دو ملازمین کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ اس وقوعہ  کی درج ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے سابق اپوزیشن لیڈر اور سابق صوبائی وزیر میاں محمودالرشید اور سابق صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال نے گولیاں چلائیں جس سے قدیر اور عبداللہ مارے گئے۔

پچھلے دو دن سے ملک بھر میں جاری ہنگامہ آرائیوں میں 7 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ دو افراد کو کور کمانڈر لاہور کی سابق قیام گاہ پر قتل کیا گیا۔

 آئی ایس پی آر نے "9 مئی کو ملکی تاریخ کا سیاہ دن قرار دیتے ہوئے کہا ہے  کہ فوجی تنصیبات پر حملوں کے پیچھے پی ٹی آئی کی شرپسند لیڈر شپ ہے۔ یہ بھی کہا کہ جو کام پچھتر برسوں میں دشمن نہ کرسکا وہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد اقتدار کی ہوس میں مبتلا سیاسی لبادہ اوڑھے گروہ نے کر دیکھایا‘‘۔

جان کی امان ہو تو عرض کروں حضور آپ کے ادارے کے ایک سابق سربراہ نے جو آج کل کور کمانڈر کوئٹہ ہے  2018ء کے جھرلو برانڈ انتخابی نتائج کے بعد ٹویٹ کی تھی

’’اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے‘‘ گو وہ موصوف بعد میں ٹویٹ ڈیلیٹ کرکے بھاگ نکلے تھے لیکن سچ پوچھیں تو ہوس اقتدار میں مبتلا ٹولے کی انتخابی منیجمنٹ سے کالعدم ٹی ٹی پی کے مذاکرات کار کو اقتدار پر مسلط کرنے کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔

سازشوں اور گھٹیا عزائم کو الہی فیصلہ قرار دینے والوں کو کیا اس امر پر یقین نہیں تھا کہ اللہ پر بہتان باندھنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔

2018ء کے انتخابات کے فراڈ سے لائے گئے ٹولے کے ساڑھے تین برسوں میں  جو تباہ کاریاں ہوئیں ان سے اس ٹولے کے خالقین کیسے بری الذمہ قرار پائیں گے۔

 ہم تو تواتر کے ساتھ برسوں سے ان سطور میں کہتے رہے کہ آپ اپنا  ایک تجربہ ایسا بتا دیجئے جو ملک اور عوام کے حق میں  خیر کا باعث بنا ہو۔

جنرل ضیاء الحق کی گود لی ہوئی انجمن سپاہ صحابہ سے شروع کیجئے اپنی تخلیقوں کے نام اگر بھول گئے ہوں تو کہیئے ہم آپ کو یاد دلا دیتے ہیں۔ سارے تجربے الٹ کر آپ کو ایسے ہی گلے پڑے۔

 ذرا چودھری ظہیر الاسلام نامی ایک عظیم جاسوس سے پوچھئے  کہ کیا ان کے ادارے کے پاس اس امر کے دستاویزاتی ثبوت نہیں تھے کہ ڈرون حملوں کے خلاف ایک جرمن این جی او کی مہم کے لئے عمران خان کو اس کی سابق اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ کی  معرفت کتنی رقم پر ہائر کیا گیا تھا؟

خیر چھوڑیئے مجھے اندازہ ہے اس جواب کا جو آپ دیں گے کیونکہ  اس  قلم مزدور نے جب  یہ سٹوری اپنے کالم میں بریک کی تھی تب جو رویہ اپنایا گیا اور جس طرح گنگا میں دھلی زبان استعمال کی گئی اس کی کڑواہٹ برسوں بعد بھی محسوس کر رہا ہوں۔

بنیادی بات یہ ہے کہ جب تک اس ملک کا مالک بنے رہنے کا زعم ہے آپ تجربوں سے باز نہیں آئیں گے۔ تجربے کریں گے نتائج آپ کے گلے پڑیں گے۔

 مناسب ہے کہ مالک بننے کا شوق ترک کر دیجئے۔ اپنے وسیع و عریض کاروبار کو ٹیکس نیٹ کے دائرے میں لایئے۔ دستور کی حاکمیت اور لولی لنگڑی جمہوریت دونوں کا احترام کیجئے۔

مجھے معلوم ہے کہ 2018ء کی انتخابی منیجمنٹ اور ذلت بن جانے والی ففتھ جنریشن وار کے خالقین کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں ہوگی  اس لئے اس موضوع کو اٹھا رکھتے ہیں۔

 ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ عمران خان کو گرفتار ہوئے آج تیسرا دن ہے پچھلے دو دنوں اور آج ملک میں جو کچھ ہوا اس کا ذمہ دار کون ہے؟

 بظاہر تحریک انصاف۔ مگر کڑوا سچ یہ ہے کہ اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے اکتوبر 2011 ء  میں یہ تجربہ شروع کیا وہ لوگ بھی جنہوں نے امریکہ کو یقین دہانی کرائی کہ سی پیک سمجھوتے کو آگے نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔

وہ لوگ جو 2014ء کے ڈی چوک دھرنے کے سہولت کار تھے۔ وہی لوگ جو 2018ء میں انتخابی منیجمنٹ کرتے رہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ قومی مجرموں کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں  ہوسکے گی۔

یہاں سب سے آسان کام مذہبی ٹُچوں اور بازاری  بوزنوں سے سیاستدانوں کو گالی دلوانا ہے۔ مجھ سمیت کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ ان محلاتی سازشوں کے کرداروں کو بے نقاب کرے جنہوں نے نئی پارٹی بنوانے کے لئے بار بار پارٹیاں تڑوائیں۔

سادہ لفظوں میں یہ کہہ لیجئے کہ موجودہ صورت حال اسٹبلشمنٹ کے تجربوں کا خصوصی انعام ہے۔

اب روئیں دھوئیں، کسی کو اقتدار کی ہوس میں مبتلا کہیں یا کچھ اور، کوئی فرق نہیں پڑنا۔ ویسے بھی نفرت پر ہوئی تقسیم والے کھیتوں میں کبھی گلاب نہیں اگے تو  اب کیسے اُگائے جاسکتے ہیں ۔

 اس ملک کی بنیادوں میں کیا ہے، نفرت، جھوٹ، جعلی تاریخ، سامراج نوازی، خبط عظمت اور احساس کمتری کے ملغوبے کے سوا؟

 پچھتر برسوں کی تاریخ کیا ہے۔ کیا اس پر میں اور آپ ٹھنڈے دل سے غور کرسکتے ہیں؟ نہیں کریں گے کیونکہ ان بتوں کے ٹوٹنے کا خدشہ ہے جنہیں ہم اوتار سمجھ کر پوج رہے ہیں۔

ایک بات اور آئی ایس پی آر کی معرفت  ان افسروں سے کہنی ہے جنہوں نے سید ساجد نقوی کا متبادل تلاش کرنے کی جھک ماری تو کیا ملا اس تجربے سے بھی یہ  گلے ہی  پڑا۔

چلیں تفصیل سے پھر بات کریں گے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میں ان دوستوں اور تجزیہ نگاروں سے متفق نہیں جو کہتے ہیں کہ پچھلے تین دنوں سے جو کچھ ہوا اس کی ذمہ دار تحریک انصاف ہے۔

حضور اس کے ذمہ دار پارٹیاں توڑ کر تحریک انصاف کی نشاط ثانیہ کے پروگرام کو آگے بڑھانے والے ہیں۔

بہت ادب کے ساتھ میں ان دوستوں سے بھی متفق نہیں جو پانچ منٹ سنجیدہ موضوع پر گفتگو نہ کرسکنے والے باتونی اور خود پسند شخص کو کسی اینٹی اسٹبلشمنٹ تحریک کا گاندھی یا خمینی کہہ رہے ہیں۔

جایئے اور تحقیق کیجئے کہ منگل کی شام شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کے علاوہ کن تین افراد نے ریاستی محکموں کے ذمہ داران سے رابطہ کیا تو کیا عرضیاں پیش کیں۔

 رہا سوال اس بات کا جو کچھ "نو انقلابیوں”  کو چین نہیں لینے دے رہی  ہے کہ بھٹو کی پھانسی پر اس کے کارکنوں اور ہمدردوں میں اتنی جرات نہیں ہوئی کہ کسی فوجی کی بندوق ہی چھین لیتے یہ عمران خان کے تربیت یافتہ نوجوان ہیں جو چھائونیوں میں جا بھڑے اور لڑے۔

ان کی خدمت میں عرض ہے سیاسی جماعتیں آگے بڑھنے کے لئے راستہ بناتی ہیں پیپلزپارٹی نے جنرل ضیاء کے فوجی سے بندوق نہیں چھینی، سیاسی جدوجہد کی دوسری پارٹیوں سے مل کر۔ اس جدوجہد میں ایک لاکھ پچیس ہزار کے قریب لوگوں کو 6 ماہ سے ایک سال کی سزائیں سمری ملٹری کورٹس نے دیں۔

دو ہزار سے زائد افراد کو سپیشل ملٹری کورٹس نے تین سے چودہ سال کی سزائیں دیں۔ درجنوں افراد کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔

کچھ پھانسی چڑھے کچھ اس لئے بچ گئے کہ ضیاء کا اقتدار ختم ہوگیا تھا۔ ملک بھر میں  25 ہزار سیاسی کارکنوں کو 5 سے 10کوڑوں کی سزائیں بھی دی گئیں۔

آج پیپلزپارٹی سیاست میں موجود ہے جنرل ضیاء کہاں ہے؟

اس لئے عزیزو !

 سیاسی کارکن بن کر سوچا اور سوال کیا کرو تاکہ سندرہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔

مصنف کے بارے میں:

حیدر جاوید سید پاکستان کے سینئر ترین صحافی، کالم نویس اور تجزیہ نگار ہے۔ وہ گزشتہ پانچ دھائیوں سے صحافت و اخبار نویسی کے شعبے سے منسلک ہے۔ اور پاکستان کے موقر اخبارات و جرائد کے لئے کام کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے چوتنیس کے قریب کتابین لکھی ہے جن میں  سچ اور یہ عشق نہیں آساں تصوف کے موضوع پر ہیں باقی کچھ سیاسی ادبی کتب ہیں اور ایک سفر نامہ ہے جبکہ خلیل جبران کے کلیات کو مرتب  کر چکے ہیں۔ آج کل وہ اپنی سوانح عمری لکھنے میں مصروف ہے جبکہ روزنامہ مشرق پشاور اور بدلتا زمانہ کے لئے کالم اور ایڈیٹوریل لکھتے ہیں۔ آپ پاکستان کا واحد صحافی ہے جسے جنرل ضیا کے دور میں بغاوت کے مقدمے میں سپیشل ملٹری کورٹ نے تین سال قید کی سزا دی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں