Baam-e-Jahan

پٹائی پر پٹائی


تحریر: اسرار الدین اسرار


پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک پارٹی کی پٹائی پر باقی ساری پارٹیاں نہ صرف خوشی کا اظہار کر تی رہی ہیں بلکہ اس سے کار خیر سمجھ کر اپنا حصہ بھی ڈالتی رہی ہیں۔

یہ عمل آٹھ دہائیوں سے جاری ہے۔ مارشل لاز کے ادوار میں سیاسی لوگ ڈیکٹیٹرز کے ساتھ مل کر جمہوریت پسند قوتوں کے ساتھ کیا مظالم ڈھاتے رہے وہ داستانیں تو بھیانک ہیں ہی لیکن ماضی قریب میں مسلم لیگ اور پی پی پی وغیرہ ایک دوسرے کی بھی خوب پٹائی کر تی رہی ہیں۔ وہ وقت بھی دیکھا گیا جب پی ٹی آئی نے پی پی پی، مسلم لیگ اور دیگر پارٹیوں کی اجتماعی پٹائی کی۔ تب پی ٹی آئی کو یہ خیال نہیں آیا کہ اگلی باری ان کی ہے۔ تب جب ہم ان سے کہتے تھے کہ جناب ہاتھ ہولا رکھیں اگلی باری آپ کی ہے تو وہ ہنستے تھے۔

 پھر ہوا وہی یعنی آج یہ سب جماعتیں مل کر پی ٹی آئی کی پٹائی کر رہی ہیں۔ کوئی بعید نہیں ہے کہ مستقبل میں پھر مسلم لیگ ن اور پی پی پی، جے یو آئی اور دیگر جماعتوں کی پٹائی ہوگی۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ کوئی نئی جماعت معرض وجود میں آئے اور موجودہ تمام سیاسی جماعتوں کی اجتماعی پٹائی کرے۔

موجودہ برسر اقتدار پارٹیاں ہاتھ ہولا نہیں رکھیں گی تو ان کی باری میں بھی ایسا ہی ہوگا جو ماضی میں ہوا ہے۔

 ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی شدت پسندی سے اجتناب کیا جائے، ایک دوسرے کی پٹائی پر خوشی کا اظہار کرنے کی بجائے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے کیونکہ اگلی باری یقینی طور پر آج ہنسنے والوں کی ہوتی ہے۔

 ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی شدت پسندی سے اجتناب کیا جائے، ایک دوسرے کی پٹائی پر خوشی کا اظہار کرنے کی بجائے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے کیونکہ اگلی باری یقینی طور پر آج ہنسنے والوں کی ہوتی ہے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ نئی نسل تاریخ پر نظر دوڑائے بغیر سیاسی عمل میں شریک رہتی ہے اس لئے پہلے ہنستی اور بعد میں روتی ہے۔ جب ایک نسل کچھ سبق سیکھنے کے موڑ میں آجاتی ہے تو ایک فریش نسل آکر پھر زیرو سے شروع کرتی ہے۔

 یوں وہ نئی نسل پرانی نسل کی پٹائی شروع کرتی ہے اور حالات بدلتے ہی پھر پرانی نسل بدلہ لینے کے چکر میں نئی نسل کی پٹائی کرتی ہے۔ یہ چین آف پولیٹیکل وائیلینس ہے۔ اس کو کسی ایک مقام پر توڑنا ضروری ہے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ نئی نسل تاریخ پر نظر دوڑائے بغیر سیاسی عمل میں شریک رہتی ہے اس لئے پہلے ہنستی اور بعد میں روتی ہے۔ جب ایک نسل کچھ سبق سیکھنے کے موڑ میں آجاتی ہے تو ایک فریش نسل آکر پھر زیرو سے شروع کرتی ہے۔

یہ سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کی پٹائی پر خوش ہونے والی جماعتیں دراصل اپنی باری کو دعوت دے رہی ہوتی ہیں۔ ماضی سے سبق سیکھ کر جو اصل کام ان جماعتوں کے کرنے کا ہے وہ یہ نہیں کر رہی ہیں۔ وہ کام ہے کہ اپنی صفوں کو درست کریں، اپنے اندر جمہوریت لائیں اور تمام جمہوری قوتیں ایک دوسرے کا احترام کریں۔ ایک دوسرے کو پیٹنے کی بجائے ایک دوسرے کی بات سنیں اور معاشرے میں جمہوری اقدار کو فروع دیں۔

وہ کام یہ ساری جماعتیں اس لئے نہیں کر پا رہی ہیں کیونکہ ان کے اندر بھی جمہوریت نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ یہ تمام جماعتیں مل کر جمہوریت پر بات کریں، اپنی جماعتوں کے اندر اور آپس میں جمہوریت کو فروع دیں، ورنہ پٹائی پر پٹائی کا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا ۔ آج ایک پٹے گی کل دوسری پارٹی کی باری  ہو گی، نہ ملک ترقی کرے گا نہ جمہوریت مضبوط ہوگی۔

مصنف کے بارے میں :

اسرار الدین اسرار انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان گلگت بلتستان کے کا نمائندہ ہے۔ اسرار بام جہان کے ریگولر لکھاری ہے ان کی دلچسپی کے موضات سماجی مسائل، گھریلو تشدد اور انسانی حقوق کے مسائل ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں