اگر جلد از جلد چترال شندور روڈ پر کام شروع نہ ہوا تو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اس کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ عمائدیں اپر چترال
رپورٹ: کریم اللہ
چترال شندور روڈ پر کام بند ہونا علاقے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے اس ظلم و زیادتی پر عوام خاموش نہیں بیٹھے گی اور عنقریب اپر چترال کے کونے کونے سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔
اس بات کا فیصلہ بونی اپر چترال میں تحریک حقوق اپر چترال نامی تنظیم کی جانب سے منعقدہ میٹنگ کے شرکاء نے کیا۔ اس موقع پر تحصیل چیرمین مستوچ سردار حکیم اور تحصیل چیرمین تورکھو موڑکھو جمشید میر کے علاوہ بڑی تعداد میں ویلج کونسل کے ناظمین، دیگر ممبران اور سماجی کارکنان موجود تھے۔

اس موقع پر تحریک حقوق اپر چترال کی جانب سے پرویز لال نے میٹنگ کا ایجنڈا پیش کیا اور شرکاء کو بتایا کہ چترال شندور روڈ ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اس سڑک پر کام کی بندش علاقے کی ترقی میں بہت بڑی رکاؤٹ ہوگی جس کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔
اس موقع پر موجود شرکاء اور عوامی نمائندگاں و سول سوسائیٹی کے اہلکاروں نے باری باری اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس اہم منصوبے پر کام کی بندش سے علاقے کے لوگوں میں بے چینی پھیل رہی ہے۔

اگر حکومت عوام میں پائی جانے والی اس اضطراب پر توجہ نہ دی تو آنے والے وقتوں میں اس کے انتہائی بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ شرکاء کا یہ بھی کہنا تھا کہ چترال ایک پسماندہ علاقہ ہے اور گزشتہ ستر برسوں کے اندر کسی نے بھی یہاں کے انفراسٹریکچر کی بہتری کی جانب توجہ نہیں دی۔ جس کی وجہ سے آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی لوگ ان کھڈوں پر سفر کرنے پر مجبور ہے۔

شرکاء نے بتایا کہ چترال شندور روڈ نہ صرف علاقے کی ترقی کے لئے ایک اہم منصوبہ تھا بلکہ یہ اس علاقے کی دفاعی مقام کے پیش نظر بھی انتہائی اہمیت کے حامل شاہراہ ہے جو بالائی چترال کو واخان بورغل کے ذریعے واخان کوریڈور اور شندور کے ذریعے گلگت بلتستان سے ملاتی ہے۔ اس اہم شاہراہ کی تعمیر دفاعی نقطہ نگاہ سے بھی لازمی ہے۔
میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ اس شاہراہ پر کام دوبارہ شروع کروانے کے حوالے سے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر کوشش کریں گے اور عوام کو لے کر احتجاج کرنے کی نوبت آئی تو چترال سے ڑاسپور اور بورغل تک کے عوام کو باہر نکال کر احتجاج کیا جائے گا۔