Baam-e-Jahan

سرائیکی پاکستان کی ایک بڑی زبان ہے جس میں ایک منفرد مٹھاس اور گہرائی شامل ہے: فرحت اللہ بابر


رپورٹ: شاہد دھریجہ


عالمی ثقافتی دن کی مناسبت سے سرائیکی ادبی اکیڈمی، صحرائی سوشل آرگنائزیشن کے زیر اہتمام پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس (پی این سی  اے) میں ایک سرائیکی ثقافتی پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں جڑواں شہروں میں مقیم سرائیکی دانشور، ادیب ، صحافی، وکلاء ، ڈاکٹرز، طلبہ اور سرائیکی برادری سرائیکی ثقافت کی مٹھاس کا مشاہدہ کرنے کے لیے جمع ہوئی۔

سابق سینیٹر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ممتاز رہنما فرحت اللہ بابر نے تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی انہوں نے اپنی تقریر میں  کہا کہ سرائیکی پاکستان کی ایک بڑی زبان ہے جس میں ایک منفرد مٹھاس اور گہرائی شامل ہے۔ میں نے اس کمیشن کی قیادت کی جو سرائیکی صوبے کے قیام کی کوشش میں تشکیل دیا گیا تھا۔ اس لیے مجھے سرائیکی ثقافت سے گہرا لگاؤ ہے۔

مزید برآں، انہوں نے ثقافتی پروگراموں کے انعقاد کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ فنون لطیفہ میں تشدد کا مقابلہ کرنے اور معاشرے میں امن اور رواداری پیدا کرنے کی جادوئی طاقت ہے۔

اس موقع پر حسن بیگ نے کہا کہ سرائیکی ثقافت کا فروغ اتحاد و یکجہتی کا ضامن، ثقافت کی مقصدیت اور وسعتیں لامحدود ہیں جو قومیں اپنی ثقافت کے ساتھ جڑی رہتی ہیں وہی دنیا میں ترقی کرتی ہیں۔

ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا کہ سرائیکی ادبی اکیڈمی کی صدر ڈاکٹر سعدیہ کمال اپنے ابتدائی کلمات اور مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ سرائیکی ثقافت کا مقصد جہاں ماضی کو حال سے جوڑ کر اپنی شناخت کا ادراک حاصل کرنا ہے وہاں اس کا مقصد بہترین معاشرے کی تشکیل بھی ہے کیونکہ تہذبی قدروں کے وجود اور ان میں ترقی و تریج سے زندگی میں حرارت بھی پیدا ہوتی ہے اور توازن بھی۔

انہوں نے کہا کہ فنکار دنیا بھر میں امن کے سفیر سمجھے جاتے ہیں۔ سرائیکی وسیب میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ۔

اس موقع پر شہید بھٹو فاؤنڈیشن کے سی ای او آصف خان کا کہنا تھا کہ آرٹ اینڈ کلچر کسی بھی ملک کا نمایاں حصہ  ہوتے یں جو اس ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ڈاکٹر مہناج السراج نے کہا کہ ثقافت کسی بھی زبان کا وہ نمایاں پہلو جو اس کو دوسروں سے مختلف بناتا ہے۔

شو میں ایک تماشائی ملائکہ ثاقب نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں نے دنیا بھر کا سفر کیا ہے اور بہت سی ثقافتوں کی کھوج لگائی  ہے، لیکن سرائیکی ثقافت میں جتنی مٹھاس ہے وہ کسی اور ثقافت میں نہیں ہے۔ اگرچہ میں خود سرائیکی نہیں ہوں، لیکن مجھے سرائیکی ثقافت سے گہرا لگاؤ ہے۔

اس کے علاوہ دیگر رہنماؤں ڈاکٹر ایس ایم شاہین، ڈاکٹر مبشر ڈاہا، چیئرمین اپنیک صدیق انظر، رانا ابرار خالد، ڈاکٹر عثمان بلوچ، مدثر بھارا نے نے بھی خطاب کیا۔

 پروگرام کے شروع میں ریڈیو پاکستان ملتان کی معروف اور سرائیکی کی لیجنڈ گلوکارہ ثریا ملتانیکر کی آواز میں سرائیکی ترانہ "کھڑی ڈیندی آں سنہیڑا انھاں لوکاں کوں ، اللہ آن وساوے ساڈیاں جھوکاں کوں” کے احترام میں تمام سامعین کھڑے ہوگئے اور ہال میں سکوت طاری ہو گیا۔

اس ثقافتی پروگرام کے  پہلے سیشن کی نظامت سرائیکی ادبی اکیڈمی کے سیکرٹری جنرل راقم الحروف شاہد دھریجہ، دوسرے سیشن مشاعرے کی نظامت ریڈیو ٹی وی کے معروف کمپیئر سلیم شہزاد اور تیسرے سیشن محفل موسیقی کی نظامت پی ٹی وی کے معروف سابق کمپیئر نذیر تبسم نےخوبصورت لطیفوں اور چٹکلوں سے سماں باندھے رکھا۔

سرائیکی ادبی اکیڈمی کی صدر ڈاکٹر سعدیہ کمال ، شاہد دھریجہ، صحرائی سوشل آرگنائزیشن کی فرحت فاطمہ اور عامر نواز نیازی نے تمام تقریب میں شریک معزز مہمانانِ گرامی اور شرکا کو سرائیکی اجرکیں پیش کیں۔ جس سے ہال میں سرائیکی وسیب نمائندگی کا عکس چھا گیا۔

سرائیکی شعراء ڈاکٹر فرحت عباس، سجاد لاکھا، ناصر منگل، رفعت انجم، محمودہ غازیہ، رانا عبدالرب ، طاہر فاروق بلوچ، عابد نیازی، یوسف سانول، خاور لغاری، خالد سعید، سلیم اختر، صفی اللہ سیف، ڈاکٹر عزیز فیصل نے اپنا خوبصورت کلام پیش کر کے لوگوں کے دل موہ لیے۔ جبکہ سینئر شاعر وفا چشتی، نیئر سرحدی اور راشدہ ماہین ملک نےترنم میں کلام سنا کر خوب داد سمیٹی۔

سرائیکی میوزیشن آرٹسٹ طبلہ نواز آتش، ڈھول پر عامر ، کی بورڈ آپریٹر فیاض اور آریٹ آپریٹر انیس کی ماہرانہ سنگت پر سرائیکی لوک فنکار یاسر موسیٰ خیلوی، صائمہ راجپوت، ظہیر علی نے اپنی سُر کا جادو جگاتے ہوئے لوک گیت پیش کیے جس پر حاضرین جھومنے پر مجبور ہو گئے۔

سرائیکی طلبہ نے سرائیکی گانوں، ڈھول ، بین اور شرنا کی دھن پر سرائیکی جھومر پیش کیا۔ جبکہ نیشنل آرٹ پرفارمنگ گروپ کی ٹیم نے حضرت خواجہ غلام فرید کے کلام اور راحت ملتانیکر کا گایا ہوا مشہور گیت پیلھوں پکیاں نی وے ، آ چنوں رل یار” اور چولستانی میوزک روح کو ہلا دینے والا شاعرانہ سمپوزیم اور مدھر لوک میوزیکل شو نے نہ صرف سرائیکی ثقافت کی نازک تفصیلات کی عکاسی کی بلکہ سامعین کو سرائیکی وسیب کے ثقافتی دائرے میں بھی غرق کردیا۔

خانزادہ اسفند یار خٹک نے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے مقبول گانے  "قمیض تیڈی کالی” پر خوبصورت رقص کر کے سامعین سے دادِ تحسین حاصل کی۔

اسلام آباد کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے سرائیکی طلبہ نے کہا کہ دلکش سرائیکی شو کا انعقاد کرنے والے تمام لوگوں کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ  شو میں موجود تمام فنکاروں نے پرفارمنگ آرٹس کے ذریعے سرائیکی ثقافت کی عکاسی کی جسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔

ثقافتی جشن کی ایک شاندار نمائش میں، سرائیکی ادبی اکیڈمی اور سحر سماجی تنظیم نے PNCA کے ساتھ مل کر 21 مئی کو منائے جانے والے عالمی ثقافتی دن کی یاد میں ایک ناقابل فراموش پروگرام ترتیب دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں