عمران خان ہر لحاظ سے نرگسیت، پيرانائیڈ شیزو فرینیا ، بائی پولر ڈس آرڈر ، خبط عظمت، اور ڈیلوژن جیسی علامات پر مبنی ایک مکمل کیس ہے۔ اس کے علاوہ خان صاحب کی شخصیت سٹیفن کوی کے الفاظ میں (enemy۔centered thinking) یا دشمن مرکز سوچ کی بھی عمدہ مثال ہے۔
تحریر: سلطان محمد
نفسیات کے طلباء عموماً کورس ورک کے دوران اپنی ڈگری کی ضرورت کے تحت کچھ کیس اسٹڈیز بھی پیش کرتے ہیں یا ان پر گروپ ڈسکشن کی صورت میں گفتگو کرتے ہیں۔
کیا یہ ممکن ہے کہ خان صاحب کی شخصیت کا ایک مکمل تجزیہ بطور ایک نفسیاتی مریض کے کیا جائے اورسائیکالوجی اور سائیکیاٹری کے طلباء کو بطور کیس اسٹڈی پڑھایا جائے؟
یہ ہر لحاظ سے نرگسیت، پيرانائیڈ شیزو فرینیا ، بائی پولر ڈس آرڈر ، خبط عظمت، اور ڈیلوژن جیسی علامات پر مبنی ایک مکمل کیس ہے۔ اس کے علاوہ خان صاحب کی شخصیت سٹیفن کوی کے الفاظ میں (enemy۔centered thinking)
یا دشمن مرکز سوچ کی بھی عمدہ مثال ہے۔ نفسیات کے طلباء کے لئے کچھ اشارے دئیے جا رہے ہیں، طلباء چاہیں تو اپنے کورس ورک کے دوران اس پر مذید تحقیق کر سکتے ہیں۔
خان صاحب کی کوئی بھی تقریر اُٹھا کر دیکھ لیجئے اور اس میں میں، میری، میرا، میں نے یہ کیا، میں نے وہ کیا جیسے الفاظ اور تراکیب کا تکرار نوٹ کر لیں۔
ایک ٹی وی چینل خان صاحب کی کسی ایک تقریر کو لے کر یہ کام پہلے ہی کر چکا ہے۔ نرگسیت کی اتنی اعلیٰ مثال کسی اور جگہ ملنا مشکل ہے۔
اصلاح احوال کے لئے اپنا کوئی مثبت پروگرام دینے کی بجائے ہر وقت فلاں چور ہے، فلاں کرپٹ ہے، جیل میں ڈالوں گا، اے سی اترواؤں گا، وغیرہ وغیرہ۔ ایسے بیانات دشمن مرکز سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں۔
وزیرِ اعظم بننے کے بعد بھی خان صاحب کے ان بیانات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ وہ کنٹینر سے ہی اُترے۔ حتیٰ کہ متعدد بین الاقوامی فورمز پر بھی کرپشن کرپشن کا رونا روتے رہے، یہ سوچے بغیر کہ ان کی ایسی تقریروں کے بعد کون بے وقوف پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کے لئے تیار ہوگا۔
کوکین کے مستقل استعمال سے درسی کتابوں میں جن نقصانات کا ذکر درج ہے وہ خان صاحب کی شخصیت میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں، مثلاَ آنکھوں کی پُتلیوں کا پھیل جانا (Pupil dilation)، روشنی کے لئے حساسیت بڑھ جانے کی وجہ سے بند کمرے میں بھی کالے چشمے کا استعمال۔
ذیادہ گرمی لگنا (Hyperthermia) اور معمول سے زیادہ پسینہ آنا۔
مزاج میں چڑچڑا پن (Agitation) پیدا ہوجانا۔ بات بات پر احتجاج، دھرنے اور ہڑتالوں کی کال دینا۔ جی ٹی روڈ بند کر دیں گے، موٹر وے بند کر دیں گے، پورا پاکستان بند کر دیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔
مردانہ کمزوری (erectile dysfunction) کا پیدا ہوجانا، اس کا ذکر غالباً ریحام خان نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ یہاں اس کیفیت کا ذکر بطور ایک علامت کے کیا گیا ہے، کسی کی ذاتی زندگی پر بات کرنا مقصود نہیں۔
بڑے بڑے دعوے کرنا اور بعد میں ان سے مکر جانا، المعروف یوٹرن لے لینا۔ ایسا بائی پولر ڈس آرڈر کے مینک (Manic) فیز میں ہوتا ہے۔ بائی پولر ڈس آرڈر کا دوسرا فیز ڈپریشن کہلاتا ہے جس میں اکثر مریض کو مینک فیز میں کیے گئے فیصلوں اور حرکات پر پشیمانی بھی محسوس ہوتی ہے۔ بعض اوقات اصلاح احوال کے لئے ایسے مریض نارمل ہونے کے بعد معافی بھی مانگ لیتے ہیں۔
یہ پکّا یقین (delusion) کہ اسے کسی عظیم کام کے لیے قدرت کی طرف سے چن لیا گیا ہے اور یہ کام صرف اُسی کے ہاتھوں پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے، یہ خبطِ عظمت یا (grandiose) کہلاتا ہے۔
یہ کہ پوری دنیا ہمارے یا میرے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ فلاں کام فلاں وقت پر فلاں فلاں کی سازش کے نتیجے میں ہوا ورنہ میری تو اس میں کوئی غلطی نہیں تھی۔ یہ پیرانائيڈ سکیزوفرینیا کی علامت ہے۔
(ہماری حکومت سازش سے گرائی گئی، چار لوگوں نے مل کر مجھے مارنے کی سازش بنائی ہے، وغیرہ وغیرہ)
اس کے علاوہ ایسے مریض عمومًا توہم پرستی کا بھی شکار ہوتے ہیں اور جنّات، بھوت، پریت وغیرہ پر یقین رکھتے ہیں۔ ریحام خان نے جسم پر کالی دال ملنے کا ذکر کیا ہے۔ خان صاحب کا جنازوں پر جانے سے اجتناب کرنا، بابا فرید کے مزار پر حاضری کے دوران خان صاحب کی حرکتیں اور بنی گالا میں بشریٰ بی بی کے معمولات سب کو معلوم ہیں۔