Baam-e-Jahan

شاعرانہ ذہنیت اور مبالغہ

عزیزعلی داد

علم بشریات کی رو سے لوک زبانوں اور شاعری میں دانشمندی ہوتی ہے۔ آپ اس لوک دانش کو اجاگر کریں۔ خواہ مخواہ میں شاعر کو گھسیٹ کر فلاسفر بنائیں گے تو وہ نہ شاعر رہے گا نہ فلسفی۔ وہ آدھا تیتر آدھا بٹیر ہی بنےگا۔

تحریر: عزیز علی داد


پتہ نہیں ہم ہر چیز کو شاعری میں ہی کیوں ڈھونڈتے ہیں۔اگر ہم فلسفہ تلاش کرنا چاہیں تونثر میں لکھی فلسفے کی کتابوں کو چھوڑ کرشاعری کے سمندر میں غوطے لگا کر فلسفےکے گوہر نکال رہے ہوتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلےگلگت کی واحد جامعہ کے کلیہ سائنس کے ایک شعبے نے موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانےکے لیے شاعری کی کتاب چھاپی تھی۔

اب گلگت میں حکومت خودکشیوں کی  روک تھام کے لیے شاعری کا سہارا لے رہی ہے۔ اس سلسلے میں گلگت بلتستان کی مقامی زبانوں میں شاعری کی جائے گی۔

اس کے برعکس ہمارا ماننا ہےکہ گلگت بلتستان کی مقامی زبانوں کےگانوں پر پابندی لگا دو، آدھی خودکشیاں خود بخود کم ہو جائیں گی۔

ہماری شاعری میں کفن دفن کاسارا انتظام ہوتا ہے اور اس میں دکھ، الم اور اذیت کو دل فریب بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ خودکشی کی آئیڈییشن ایسی ہی شاعری سے شروع ہوتی ہے۔

ایک دفعہ ادب کے ایک قدر دان فرما رہے تھےکہ فلاں شاعر کا فکر کا مرتبہ افلاطون کے برابر ہے۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ انہوں نے زندگی اور عناصر کی ظہور، ترتیب اور موت اور انہی اجزا کے پریشان ہونے کے تعلق پر ایک شاندار شعر لکھا ہے۔

ہماری شاعری میں کفن دفن کاسارا انتظام ہوتا ہے اور اس میں دکھ، الم اور اذیت کو دل فریب بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ خودکشی کی آئیڈییشن ایسی ہی شاعری سے شروع ہوتی ہے۔

 سنا ہے اس کے بعد افلاطون نے روح میں ہم آہنگی کےمتعلق اپنے نظریے سے دست بردار ہونےکا فیصلہ کیا ہے۔ ویسے بھی افلاطون کو شاعروں سے زیادہ چڑھ تھی۔

علم بشریات کی رو سے لوک زبانوں اور شاعری میں دانشمندی ہوتی ہے۔ آپ اس لوک دانش کو اجاگر کریں۔ خواہ مخواہ میں شاعر کو گھسیٹ کر فلاسفر بنائیں گے تو وہ نہ شاعر رہے گا نہ فلسفی۔ وہ آدھا تیتر آدھا بٹیر ہی بنےگا۔

ہماری ذہنیت کی تشکیل میں شاعری کا بڑا  کردار ہے۔چونکہ شاعری میں تعلی زیادہ ہوتی ہے اس لیے ہمارا ذہن بھی مبالغہ آرائی کا زیادہ عادی ہو گیا ہے۔ ویسےجس طرح کی ہماری ذہنیت ہے اس سے کوئی بعید نہیں کہ کل کلاں ہم علی زریون اور تہذہب حافی کو اپنے عہد کے شوپنہاور اور کیرکا گارڈ ہی قرار نہ دے۔

شاعری کا مارا ذہن آخر میں اپنے آپ کو ہی کھا جاتا ہے لیکن اس سے پہلے وہ لوگوں کا ذہن کھا چکا ہوتا ہے۔

مصنف کے بارے میں:

عزیزعلی داد ایک سماجی مفکر ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اور پولیٹکل سائنس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہدی نیوز، فرائڈے ٹائمز، ہائی ایشیاء ہیرالڈ اور بام جہاں میں مختلف موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر بے شمار مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ عزیز جرمنی کے شہر برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں