Baam-e-Jahan

انقلاب اور بغاوت کے درمیان لکیر


انقلابیوں میں ایک بات مشترک ہوتی ہے کہ یہ لوگ لمبا چوڑا مقدمہ چلانے کا تکلف نہیں کرتے بلکہ وہیں موقع پر چھوٹی سے عدالت لگا کر سرسری سماعت کے بعد موت کا حکم سنا دیتے ہیں جس پر چند منٹ میں ہی عمل کر دیا جاتا ہے۔

تحریر: یاسر پیرزادہ


انقلاب دو طرح کا ہوتا ہے، ایک وہ جو کامیاب ہو جائے اور دوسرا وہ جو ناکام ہو جائے۔ ناکام ہونے والا انقلاب دراصل انقلاب نہیں ہوتا بلکہ وہ بغاوت کہلاتا ہے۔ کامیاب انقلاب کے بعد بادشاہوں اور حکمرانوں کو عموماً ان کے ساتھیوں سمیت محلات سے باہر گھسیٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے جبکہ ناکام انقلاب میں یہی سلوک باغیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

روس میں بالشویک انقلاب کے بعد حکمران نکولس دوئم کو اُس کے خاندان کی عورتوں کے ساتھ گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا، کہا جاتا ہے کہ شاہی خاندان کی اِن عورتوں نے اِس قدر بھاری بھر کم اور بیش قیمت زیورات پہنے ہوئے تھے کہ پہلے ہلے میں بندوق کی گولی اُن پر اثر نہ کر سکی سو انہیں تیز دھار خنجر سے مار کر ہلاک کرنا پڑا۔

اسی طرح فرانس میں انقلابیوں نے پیرس میں واقع قلعے پر حملہ کر کے اُس پر قبضہ کر لیا، یہ قلعہ چونکہ بادشاہ کی فوجی طاقت کا مرکز تھا اِس لیے اِس حملے کو انقلاب فرانس کا نقطہ عروج سمجھا جاتا ہے۔ انقلاب فرانس میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن بالآخر شہنشاہ فرانس لوئی کو انقلابیوں نے موت کی سزا سنائی اور اُس کا سر گلوٹین میں دے کر کاٹ دیا، تاریخ کا ستم دیکھیں، یہ کام اسی جلاد نے انجام دیا جو اِس سے پہلے شہنشاہ کا جلاد تھا۔

ایرانی انقلاب کے نتیجے میں شاہِ ایران رضا پہلوی ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا اِس لیے اُس کی جان بچ گئی ورنہ اُس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوتا جو بادشاہوں کے ساتھ کیا جاتا ہے، البتہ رومانیہ میں نکولائی چاؤشسکو کوشش کے باوجود بھاگنے میں ناکام رہا، انقلابیوں نے اُسے بیوی کے ساتھ باندھ کر فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے گولیوں سے بھُون دیا۔

انقلابیوں میں ایک بات مشترک ہوتی ہے کہ یہ لوگ لمبا چوڑا مقدمہ چلانے کا تکلف نہیں کرتے بلکہ وہیں موقع پر چھوٹی سے عدالت لگا کر سرسری سماعت کے بعد موت کا حکم سنا دیتے ہیں جس پر چند منٹ میں ہی عمل کر دیا جاتا ہے۔

انقلاب اور بغاوت میں باریک سی لکیر ہوتی ہے، کامیاب بغاوت، انقلاب کہلاتی ہے اور ناکام انقلاب، بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ اپنے ہاں جن لوگوں کو انقلاب کا خمار چڑھا تھا وہ یہی سوچ کر گھروں سے نکلے تھے کہ جب وہ مارچ کریں گے تو پورا ملک اُن کے ساتھ اُمڈ آئے گا، یہ وہ لمحہ ہوتا جب کاروبار زندگی معطل ہوجاتا، سرکار کا سِکّہ چلنا بند ہوجاتا، زمین ساکن ہوجاتی اور عورتیں بچے جننا بند کر دیتیں۔

ایک مثال نا کام انقلاب کی بھی پیش کر دیتا ہوں۔ 2016 میں ترک فوج کے ایک دھڑے نے طیب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی، یہ کوشش تقریباً کامیاب ہونے والی تھی کہ اردگان نے اپنے موبائل فون پر عوام کو پیغام دیا کہ وہ اِس کوشش کو ناکام بنا دیں، اردگان کی قسمت اچھی تھی کہ ترک عوام سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے باغی فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ انقلاب کی اِس ناکام کوشش کے بعد طیب اردگان نے اِن باغیوں اور اُن کے حامیوں کا وہ حشر کیا کہ انہیں چھٹی کا دودھ یاد آ گیا، جس شخص کے بارے میں ذرا سا بھی شبہ تھا کہ وہ اِس سازش میں ملوث تھا، اسے پکڑ کر بند کر دیا گیا، اِن گرفتاریوں کی وجہ سے ترک حکومت پر خاصی تنقید بھی ہوئی، بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق  کی تنظیموں نے خوب واویلا کیا مگر ترک حکومت نے پروا نہیں کی۔

اب ایک منٹ کے لیے فرض کریں کہ بالشویک انقلاب اور انقلاب فرانس، ایران اور رومانیہ ناکام ہو جاتے تو پھر کیا ہوتا؟ اُس صورت میں نکولس دوئم، شہنشاہ لوئی، رضا شاہ پہلوی اور چاؤ شسکو نے انقلابیوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا تھا جو ریاست کے باغیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے کیونکہ ناکام انقلاب کے بعد یہ لوگ باغی قرار پاتے اور بغاوت کی سزا موت ہے۔ اسی طرح اگر طیب اردگان کے خلاف فوجی بغاوت کامیاب ہوجاتی تو وہ انقلاب کہلاتی اور پھر اردگان کے ساتھ وہی سلوک ہوتا جو اردگان نے باغیوں کے ساتھ کیا تھا۔

اِن مثالوں سے فقط یہ بتانا مقصود ہے کہ انقلاب اور بغاوت میں باریک سی لکیر ہوتی ہے، کامیاب بغاوت، انقلاب کہلاتی ہے اور ناکام انقلاب، بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ اپنے ہاں جن لوگوں کو انقلاب کا خمار چڑھا تھا وہ یہی سوچ کر گھروں سے نکلے تھے کہ جب وہ مارچ کریں گے تو پورا ملک اُن کے ساتھ اُمڈ آئے گا، یہ وہ لمحہ ہوتا جب کاروبار زندگی معطل ہوجاتا، سرکار کا سِکّہ چلنا بند ہوجاتا، زمین ساکن ہوجاتی اور عورتیں بچے جننا بند کر دیتیں۔

اُس موقع پر انقلابیوں کا دیوتا اپنی پوری آن بان کے ساتھ ظاہر ہوتا، کوئی اُس کے قہر کا سامنا نہ کر سکتا، وہ جو چاہتا وہی ہوتا، مملکت اُس کی محتاج ہوتی، ریاست اُس کے تابع ہوتی، دیوتا کے مخالفین خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتے جبکہ انقلابی ملک کی گلیوں میں ترانے بجاتے جھُومتے پھرتے۔ ذرا سوچیں کہ اگر سچ مُچ ایسا انقلاب آ جاتا تو کیا ہوتا، اُس صورت میں یہاں گلی کوچوں میں ’عدالتیں‘ لگی ہوتیں جن میں انقلاب کے مخالفین کو بورژوائی قرار دے کر پھانسیوں پر لٹکایا جا رہا ہوتا۔

ممکن ہے کچھ لوگ کہیں کہ یہ بات مبالغہ آمیز ہے، چلیں مبالغہ ہی سہی، لیکن اگر حقیقت پسندی سے بھی کام لیں تو یہ بات اطمینان سے کہی جا سکتی ہے کہ جو ’زیادتیاں‘ اِس وقت ہو رہی ہیں ’انقلاب کی کامیابی‘ کی صورت میں یہ زیادتیاں کم از کم دس گنا زیادہ ہونی تھیں۔ اِس بیان کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ جس قسم کا انقلاب انہوں نے لانا تھا اُس کا تو ماڈل ہی سعودی عرب، چین اور ایران سے متاثر ہو کر بنایا گیا تھا، اب ایسا انقلاب جو اِن تینوں ممالک کا ملغوبہ تھا کس قدر سفاک ہوتا، یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔

اِن میں سے جو لوگ اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے اُن کا معاملہ تو اور بھی دلچسپ ہے، چونکہ ملک کی خرابیوں کے اصل ذمہ دار وہ خود ہیں اور دل میں وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں، اِس لیے انقلابی نعرے بازی انہیں ایک گونہ اطمینان دیتی تھی کہ وہ کسی نظریے کے ساتھ کھڑے ہیں، یہ نظریہ کس قدر کھوکھلا تھا، انہوں نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ اگر کوئی انہیں آئینہ دکھانے کی کوشش کرتا تو وہ برا مان جاتے کیونکہ انہیں آئینے میں اپنا مکروہ چہرہ نظر آتا جو وہ نہیں دیکھا چاہتے تھے۔

اصل بات یہ ہے کہ انقلاب کو ہم نے بچوں کو کھیل سمجھ لیا ہے، ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ انقلاب میں کیا ہوتا، کتنے بے گناہوں کا خون بہتا ہے اور اِس کی کیا قیمت چُکانی پڑتی ہے۔ جو لوگ دو چار ترانے گا کر سمجھ رہے تھے کہ وہ انقلاب کے لیے جد و جہد کر رہے تھے انہیں اب سمجھ آ گئی ہوگی کہ وہ انقلاب کی الف ب سے بھی واقف نہیں۔ اُن کا نہ تو کوئی سیاسی شعور تھا اور نہ ہی تاریخ سے واقفیت، وہ فقط شخصی عقیدت کے تحت نعرے لگا رہے تھے اور اِس گمان میں تھے کہ اپنے تئیں وہ تاریخ کا رُخ بدل رہے ہیں۔

اِن میں سے جو لوگ اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے اُن کا معاملہ تو اور بھی دلچسپ ہے، چونکہ ملک کی خرابیوں کے اصل ذمہ دار وہ خود ہیں اور دل میں وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں، اِس لیے انقلابی نعرے بازی انہیں ایک گونہ اطمینان دیتی تھی کہ وہ کسی نظریے کے ساتھ کھڑے ہیں، یہ نظریہ کس قدر کھوکھلا تھا، انہوں نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ اگر کوئی انہیں آئینہ دکھانے کی کوشش کرتا تو وہ برا مان جاتے کیونکہ انہیں آئینے میں اپنا مکروہ چہرہ نظر آتا جو وہ نہیں دیکھا چاہتے تھے۔

اب یہ لوگ دہائی دے رہے ہیں کہ اُن کے ساتھ نرمی برتی جائے کیونکہ وہ پڑھے لکھے ہیں، انگوٹھا چھاپ نہیں، وہ پیزا کھاتے ہیں کتلمہ نہیں، وہ جینز پہنتے ہیں دھوتی نہیں، وہ فیشن ڈیزائننگ کا کام کرتے ہیں کھیتی باڑی نہیں، وہ انگریزی بولتے ہیں پنجابی نہیں، انہوں نے فرنچ کٹ رکھی ہے سُچی داڑھی نہیں!

سچی بات ہے کہ میں کسی بھی شخص کو بغیر ثبوت اور بلا جواز ایک سیکنڈ بھی حوالات میں رکھنے کے حق میں نہیں، یہ بنیادی انسانی حقوق اور آئین کی خلاف ورزی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ عام حالات نہیں اور نہ ہی عام جرائم ہیں، جو لوگ انقلاب کے لیے نکلے تھے انہیں علم ہونا چاہیے تھا کہ ناکامی کی صورت میں یہ بغاوت کہلائے گی اور اُس کی معافی نہیں ہوگی، یہ گڈے گڈی کا کھیل نہیں تھا اور نہ ہی کسی فیشن ڈیزائنر کا فیشن شو تھا۔ اِن کو شُکر کرنا چاہیے کہ اِن کا تعلق پنجابی ایلیٹ سے ہے، بلوچستان سے نہیں، کم از کم اِن پر عدالت میں مقدمہ تو چلے گا!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے