Baam-e-Jahan

جنت نظیر بالائی پنجکوڑہ خواتین کی مقتل گاہ


باقی دنیا جب صبح اٹھتی ہے تو انہیں صبح بخیر کے مسیج ملتے ہیں ہم جب اٹھتے ہیں تو قتل و غارت گری کی خبریں سنتے ہیں۔ فلاں جگہ عورت مرد مارے گئے، فلاں جگہ لڑائی ہوگئی لوگ مارے گئے، فلاں جگہ مرد پاگل ہوا اور اپنی بیوی کو مارا۔ حیرانی کی بات ہے کہ یہ پاگل وغیرہ ہمیشہ خواتین کو ہی کیوں مارتے ہیں کبھی کسی مرد کو مارا ہے؟

تحریر: گمنام کوہستانی


بالائی پنجکوڑہ کو اگر ہم خواتین کی قتل گاہ لکھے تو غلط نہ ہوگا۔ یہاں اس جنت نظیر علاقے میں روزانہ کہیں غیرت کے نام پر تو کہیں کسی اور وجہ سے خواتین کو قتل کیا جا رہا ہے۔ زیادہ دور نہیں جاتے پچھلے تین چار مہینوں میں کئی لوگ مارے گئے جن میں اکثریت خواتین کی ہیں۔ ماننے نہ ماننے سے فرق نہیں پڑتا یہ حقیقت ہے ورنہ علاقے کے پولیس سٹیشنز کا ریکارڈ چیک کیجئے۔

باقی دنیا جب صبح اٹھتی ہے تو انہیں صبح بخیر کے مسیج ملتے ہیں ہم جب اٹھتے ہیں تو قتل و غارت گری کی خبریں سنتے ہیں۔ فلاں جگہ عورت مرد مارے گئے، فلاں جگہ لڑائی ہوگئی لوگ مارے گئے، فلاں جگہ مرد پاگل ہوا اور اپنی بیوی کو مارا۔ حیرانی کی بات ہے کہ یہ پاگل وغیرہ ہمیشہ خواتین کو ہی کیوں مارتے ہیں کبھی کسی مرد کو مارا ہے؟

ہم صدیوں سے غیرت کے نام پر خواتین کو مارتے آ رہے ہیں اب تک مسئلہ ختم ہونا چاہیے تھا لیکن ہوا نہیں بلکہ اور بھی بڑھ گیا ہے۔ کیا وقت نہیں ہوا کہ ہم مل بیٹھ کر اس مسئلے کو کسی اور طریقے سے حل کریں۔ ہمیں ہمارے بزرگوں سے وراثت میں مال و دولت سمیت دشمنیاں بھی ملتی ہیں جن میں اکثریت ایسی دشمنیوں کی ہوتی ہے جسے ہم غیرت کہتے ہیں۔

اصل مسلہ یہ ہے کہ ہمیں کبھی بتایا نہیں گیا کہ عورت غیرت کے علاؤہ بھی کچھ ہے۔ بچپن سے ہمارے ذہنوں میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ مرد حاکم عورت محکوم ہے اور زر زمین کے ساتھ ساتھ زن بھی ہماری ملکیت ہے۔ مرد حاکم ہے اس لئے وہ چاہے جو بھی کرے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن عورت اگر غلطی کرے تو قیامت آجائے گی۔ اس لئے جوان چھوڑیئے ستر سالہ بوڑھی عورت بھی اگر باہر جائے گی تو مرد ساتھ ہوگا  چاہئے مرد دس گیارہ سال کا بچہ کیوں نہ ہو۔

زندگی چھوڑیئے مرنے کے بعد بھی یہ مردوں کی محکوم ہوتی ہے قبر پر لکھا ہوگا زوجہ فلاں، دختر فلاں وغیرہ کبھی کسی خاتون کا نام قبر پر لکھا نہیں دیکھا۔۔

افسوس اس بات کا ہے کہ جب خود اس غیرت خان کو چانس ملتا ہے تو فوراً اوقات پر آجاتا ہے۔ پچھلے سال کی بات ہے پنڈی میں اپنے علاقے کے ایک قریبی بندے سے ملاقات ہوئی۔ باتوں باتوں کے دوران بتایا کہ سامنے فلیٹ میں موجود ایک خاتون اس پر مہربان ہے اور ایک نہ ایک دن اسے موقع ملے گا۔ ہم وہی تھے جب خاتون آئی دیکھا ہاتھ میں کچھ پرانے کپڑے کچھ کھانا وغیرہ بھی ہیں۔ سلام دعا کے بعد پتہ چلا خاتون ایک سیدھی سادی گھریلو عورت ہے اور غیرت خان کی بیوی اور بچوں پر ترس کھا کر اُنہیں کبھی کبھار پرانے کپڑے، کھانا یا کچھ پیسے وغیرہ دے دیتی ہے۔ خاتون کے بارے میں غیرت خان کے خیالات جان کر خود سے کراہت آئی۔ یہ ہماری ذہنیت ہیں ہم کتنے ذلیل اور نمک حرام لوگ ہیں یہ خاتون کیا سوچتی ہے اور یہ غیرت خان کیا چاہتا ہے؟

  ہم صدیوں سے غیرت کے نام پر خواتین کو مارتے آ رہے ہیں اب تک مسئلہ ختم ہونا چاہیے تھا لیکن ہوا نہیں بلکہ اور بھی بڑھ گیا ہے۔ کیا وقت نہیں ہوا کہ ہم مل بیٹھ کر اس مسئلے کو کسی اور طریقے سے حل کریں۔ ہمیں ہمارے بزرگوں سے وراثت میں مال و دولت سمیت دشمنیاں بھی ملتی ہیں جن میں اکثریت ایسی دشمنیوں کی ہوتی ہے جسے ہم غیرت کہتے ہیں۔  اس لئے ہمارے ہاں چند ہی ایسے خاندان ہوں گے جن کی دشمنی نہیں ہے باقی سب لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ کب تک ایک دوسرے کا خون بہاتے رہیں گے، کبھی نہ کبھی تو یہ سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔ ہزاروں انسانوں کو مار کر بھی ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں صدیوں پہلے تھے تو پھر یہ قتل و غارت گری کیوں ؟

مصنف کے بارے میں

عمران خان آزاد المعروف گمنام کوہستانی کا تعلق اپر چترال کے علاقے سے ہیں آپ بنیادی طور پر مورخ، محقق اور سماجی کارکن ہے۔ آپ کی دلچسپی کے موضوعات میں دردستان کی قدیم تاریخ و ثقافت، کالونائزیشن اور اس کے تباہ کن اثرات ہیں۔ اس کے علاوہ آپ سماجی موضوعات پر بھی قلم اٹھاتے رہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں