اگر مزدور کسان یا عوام کا کوئی حصہ اپنا حق مانگنے کی کوشش کرے تو اس پہ تشدد کیا جاتا ہے مارا جاتا ہےاور انہیں محکوم رکھا جاتا ہے۔ ورنہ کوئی آدمی شوق سے غریب نہیں رہنا چاہتا بلکہ جبرا غربت میں دھکیلا جاتا ہے۔
تحریر: کامریڈ عرفان علی
تمام انبیاءاکرام آپنے آپنے زمانےکےفرعونوں،سرداروں،کاہنوں،مذہبی اجارہ داروں کے خلاف مصروف جہد رہے۔ مظلوموں کو دنیاوی مشکلات سے نجات دلاتے ،پتھر کھاتے،سختیاں جھیلتے رہے۔ان انبیاء اکرام پہ پرانے مذاہب و روایات کو نہ ماننے کی وجہ سے تشدد، سختیاں ،جان لیوا حملے، اور مذاہب کے انکار کے فتوے لگتے رہے۔
پھر بھی یہ عظیم ہستیاں اس غیر انسانی تقدیس کا پردہ چاک کرتی رہیں ان کے خلاف دلیرانہ جدوجہد کرتی رہیں۔تقریبا ہر پیغمبر کے وصال کے کچھ عرصہ بعد وہی لوگ جن کے خلاف یہ ہستیاں جدوجہد کرتی رہیں وہی دشمن کسی نہ کسی طریقے سے اس تحریک،اس مذہب کی قیادت اپنے کنٹرول میں لے لیتے رہےاور جو مقاصد وہ مخالفت کر کے حاصل نہیں کر پاتے تھے وہ اس تحریک میں شامل ہو کر حاصل کرتے یعنی اس تحریک سے انقلابی جوہر مٹا کر اسے پوجا پاٹ کا دہرم بنا دیتے۔
پس آج ہر مذہب کی اکثریت پیشوائیت کاروپ دھار چکی ہے جو سوسائیٹی سے رواداری کا خاتمہ،فرقہ واریت کو فروغ دیتےاور کسی بھی قسم کے اختلاف رائے ،تنقید اور سوال کو توہین سمجھتے ہیں۔آج ہر مذہبی رہنما تقدیس و عقیدت کے پردے میں خود سرمایہ دار بن چکا ہے یا بننے کی کوشش کررہا ہے یا سرمایہ دار کا ایجنٹ بن کے لوگوں کو جدید خیالات سے دور رہنے کی ترغیب اور صبر کی تلقین اس انداز سے کرتا ہے کہ وہ اپنی غربت اور برے حالات کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیں اور پیشوا کو نذرانے دیتے رہیں۔
چوکوں چوراہوں میں باقاعدہ کیمپ لگائے مذہبی تنظیمیں لوگوں سے چندہ مانگتی ہیں کہ تمہاری تقدیر اچھی ہو جاے گی تمہاری قسمت سنور جائے گی وغیرہ وغیرہ۔عام طور پہ غریبوں کو عذاب قبر ،جہنم اور آخرت سے ایسے ڈرایا جاتا ہے کہ اس زندگی میں دوزخ سے جو پریشانیاں ہیں لوگ ان کا موازنہ کسی خیالی خوف اور لالچ سے کرتے رہتے ہیں۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ چند سرمایہ دار پورے ملک کی اکثر زر ،زمین اور ذرائع پیداوار پہ قبضہ جما چکے ہیں۔وہ اقتدار میں ہوتے ہیں اور اقتدار کو استعمال کرتے ہوئے اپنی دولت میں دن دوگنی رات چوگنی اضافہ کرتے ہیں۔اگر مزدور کسان یا عوام کا کوئی حصہ اپنا حق مانگنے کی کوشش کرے تو اس پہ تشدد کیا جاتا ہے مارا جاتا ہےاور انہیں محکوم رکھا جاتا ہے۔ ورنہ کوئی آدمی شوق سے غریب نہیں رہنا چاہتا بلکہ جبرا غربت میں دھکیلا جاتا ہے۔
پہلے پراپیگنڈے اور فکری غلبے سے انہیں کنٹرول کیا جاتا ہےاگر وہ افکار کہنہ کی زنجیریں توڑنے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر ننگا تشدد اور جبر ان کو سبق سکھانے کے لیے کیا جاتا ہے۔مگر محنت کش طبقہ اپنی ہمت کے مطابق ہمیشہ مزاحمت کرتا ہے۔عام طور پہ یہ مزاحمت انفرادی ہوتی ہے مگر پھر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ یہ انفرادیت اجتماعیت کا روپ دھار لیتی ہے شروع میں یہ صرف طبقاتی لڑائی ہوتی ہے،ٹریڈ یونین لیول کی جدوجہد ہوتی ہے مگر کچھ ہی عرصے بعد یہ انقلابی جدوجہد میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
محنت کش اکثریت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ سرمایہ داروں،وڈیروں،جاگیرداروں ،افسروں نے ایک سسٹم بنا رکھا ہے ہمیں محکوم رکھنے کا لہذا اس حکمرانی کے خلاف منظم و متحدہ جدوجہد کی ضرورت ہے اور وہ تیزی سے تنظیم سازی کا گر سیکھنا شروع ہو جاتے ہیں۔وہ پسماندہ افکار کی جگہ جدید خیالات تک رسائی حاصل کرتے ہیں، اپنی کمزوری کو قوت میں بدلتے ہیں اور تاریخ انسانی کا جدید سیاسی و معاشی نظام جسے اشتراکیت (سوشلزم ) کہتے ہیں قائم کرتے ہوے صدیوں کی غلامی سے چھٹکارا پاتے ہیں یعنی اشتراکی (سوشلسٹ) سماج تعمیر کرنے کی صلاحیت پا لیتے ہیں۔