عطا الرحمان ماضی میں میاں نواز شریف کو بھی پٹو پڑھاتے رہے۔ ان کے بعد جنرل مشرف کی قریب ہو گئے اور 2002ء سے 2008ء تک ایچ ای سی کے اہم عہدوں پر رہے۔ اس سے قبل انہوں نے مختلف حکمرانوں کی چیری بلاسم سے بوٹ پالش کر کے 1998ء میں ہلال امتیاز، 1991ء میں ستارہ امتیاز اور 1983ء میں تمغہ امتیاز بھی حاصل کر لیا۔ ’اتفاق‘سے ان تینوں ادوار میں میاں نواز شریف وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ تھے۔
فاروق طارق
پاکستان کی قسمت میں عطا الرحمان جیسا نااہل سائنسدان اٹکا ہوا ہے۔ ہر حکومت کے دوران وہ ایسے پراجیکٹس کی تجاویز دیتے ہیں جو عمل میں تو کبھی بھی مفید ثابت نہ ہوئے مگر منصوبوں کے ذریعے ڈاکٹر صاحب حکمرانوں کو پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا خواب دکھانے میں ضرور کامیاب ہوئے۔
پاکستان میں سائنس اسٹڈیز کا بیڑہ اگر کسی ایک سائنس دان نے سب سے زیادہ غرق کیا ہے تو وہ یہ عطا الرحمان ہیں۔ عمران خان کی حکومت اگر اعلیٰ تعلیم اور سائنس کی ترقی کے لئے کچھ بھی نہ کر سکی تو اس کی بڑی وجہ بھی عمران خان حکومت کے دوران اس کے چیئرمین ٹاسک فورس آن سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (ڈاکٹر عطا الرحمن) ہیں۔ انہوں نے عمران خان کو ایسے سبق پڑھائے جن سے عمران خان سیاسی طور پر تو باتوں باتوں میں کوئی فائدہ اٹھانے کا سوچ سکتے تھے مگر حقیقت میں وہ کچھ بھی حاصل نہ کر سکے۔
قارئین اگر وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا اعلان اور اس کے بعد اس پر پیش آنے والے واقعات کا جائزہ لیں تو معلوم ہو جائے گا کہ کس طرح سائنسی بڑھک بازی سے کام لیا گیا۔ جب ایچ ای سی نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا کہ آپ اس جگہ یونیورسٹی نہیں بنا سکتے کیونکہ یہ اس مقصد کے لئے بنائی گئی عمارت نہیں، ریڈ زون میں ہے، سیکورٹی ایشوز ہیں، اسلام آباد کے بنیادی نقشے کو تبدیل کرنا پڑے گا…تو وزیر اعظم نے ان کی باتوں پر کان دھرنے کی بجائے عطا الرحمان کو ٹاسک دیا کہ وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرو۔
یہ ایک سیاسی نعرہ تھا مگر اس کی عملی شکل بنانے کے لئے عطا الرحمان نے اسے’پاک یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجیز‘ کا نام دے کر 34.73 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا جس میں عمران خان نے 23 ارب روپے منظور بھی کر دیئے۔
پاکستان میں اس وقت 50,000 کوالفائڈ انجینئرز بے روزگار ہیں۔ یہ ایک ہوش ربا اور آنکھیں کھول دینے والا رخ ہے۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل نے نئی انجینئرنگ یونیورسٹیوں کی بجائے موجودہ یونیورسٹیوں کو مزید ترقی دینے کا اور بے روزگار انجینئرز کے لئے روزگار اسکیموں کا مطالبہ کیا ہوا ہے، مگر یہاں عطا الرحمان حکمرانوں کو آسمان سے نیچے اترنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔
ذرا اندازہ کریں کہ پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیم کے دیگر شعبوں کے لئے 2020-21ء کے معاشی سال میں ایچ ای سی کا کل بجٹ 108 ارب روپے تھا جس میں 42 ارب روپے ڈیویلپمنٹ اور 66 ارب روپے نان ڈیویلپمنٹ اخراجات کے لئے رکھے گئے تھے اور یہاں ایک یونیورسٹی کے لئے 34 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا گیا تھا۔ وہ بھی ایک ایسی یونیورسٹی کے لئے جو کسی بھی طور ایک حقیقی یونیورسٹی کے معیار پر پورا اتر ہی نہ سکتی تھی۔ اب عمران خان کی رخصتی سے یہ سارا پراجیکٹ ہی دھڑام سے زمین پر گر گیا ہے۔
عطا الرحمان ماضی میں میاں نواز شریف کو بھی پٹو پڑھاتے رہے۔ ان کے بعد جنرل مشرف کی قریب ہو گئے اور 2002ء سے 2008ء تک ایچ ای سی کے اہم عہدوں پر رہے۔ اس سے قبل انہوں نے مختلف حکمرانوں کی چیری بلاسم سے بوٹ پالش کر کے 1998ء میں ہلال امتیاز، 1991ء میں ستارہ امتیاز اور 1983ء میں تمغہ امتیاز بھی حاصل کر لیا۔ ’اتفاق‘سے ان تینوں ادوار میں میاں نواز شریف وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ تھے۔ انہیں یہ فن خوب آتا ہے کہ تعلیم میں ’ہائی کوالٹی‘ کا بار بار ذکر کر کے سیاست دانوں کو خوب بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔
ایسا ہی ایک ادارہ انہوں نے ہری پور میں تعمیر کیا ہوا ہے۔ انہوں نے یہ خواب دکھائے تھے کہ انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی میں ہائی کوالٹی فارن پروفیسروں کو یہاں تعینات کیا جائے گا۔ نام اس کا ’پاک آسٹرین یونیورسٹی آف ایپلائیڈ سائنس اور ٹیکنالوجی‘ہے مگر اس میں کوئی آسٹرین یا یورپین پروفیسرز نہیں پڑھاتے۔ اس یونیورسٹی سے ابھی تک کوئی ایک قابل ذکر تحقیق یا سائنسی ایجاد سامنے نہیں آئی۔
جب طارق بنوری کو ایچ ایس سی سے زبردستی فارغ کیا گیا تو اس کی ایک وجہ ان کی جانب سے حکومتی دباؤ میں نئی یونیورسٹیاں بنانے کے اعلان کی توثیق نہ کرنا تھا۔ طارق بنوری کا موقف تھا کہ پہلے سے موجود یونیورسٹیوں کا بجٹ کم کر کے نئی یونیورسٹیاں بنانا ایک سیاسی نعرہ تو ہو سکتا ہے، تعلیم کی خدمت نہیں۔
جب سارے اختیارات عملی طور پر 2020-21ء کے دوران عطا الرحمان کے پاس آ گئے تو تقریباً ہر ضلع میں نئی یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا گیا۔ پہلے سے موجود یونیورسٹیوں کے پروفیسروں کو تنخواہ دینے کے پیسے نہ تھے اور وہ کئی دفعہ اس ضمن میں مظاہرے بھی کر چکے تھے لیکن نئی یونیورسٹیوں کے اعلانات کئے جا رہے تھے۔ ہر ایم این اے اس اعلان کو اپنی کارکردگی سمجھتا تھا۔ نئی یونیورسٹیاں بننے کے اعلانات بالکل خالی خولی تھے۔ ایک اعلیٰ درجہ کی یونیورسٹی کی صرف تعمیر کے لئے تقریباً 20 ارب روپے کی ضرورت ہوتی ہے مگر یہاں کالجوں اور سکولوں کی عمارتوں میں یونیورسٹیاں بنانے کے جعلی اعلانات کرنے کا سلسلہ جاری تھا۔
عطا الرحمان حقیقت میں اکڈیمک سرکلز کی فرح گوگی تھی جس نے صرف عمران خان دور میں ایک سو ارب سے زائد کے ایسے منصوبے منظور کروائے جن کی یا تو کوئی ضرورت نہیں تھی یا وہ قابل عمل نہیں تھے۔ ایسا ہی ایک منصوبہ سمبڑیال میں جاری ہے جس پر 16.8 ارب روپے خرچ ہوں گے، اس انجینئرنگ یونیورسٹی کی تعمیر کے لئے آدھے پیسے مرکز اور آدھے پنجاب نے دیئے۔ ’یونیورسٹی آف اپلائیڈ انجینئرنگ اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجیز‘کے نام سے بننے والی اس غیر ضروری یونیورسٹی کے لئے ایک دفعہ پھر ایسٹرین اور چین کی انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے تعاون کا اعلان کیا گیا۔
پاکستان میں اس وقت 50,000 کوالفائڈ انجینئرز بے روزگار ہیں۔ یہ ایک ہوش ربا اور آنکھیں کھول دینے والا رخ ہے۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل نے نئی انجینئرنگ یونیورسٹیوں کی بجائے موجودہ یونیورسٹیوں کو مزید ترقی دینے کا اور بے روزگار انجینئرز کے لئے روزگار اسکیموں کا مطالبہ کیا ہوا ہے، مگر یہاں عطا الرحمان حکمرانوں کو آسمان سے نیچے اترنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔
عطاالرحمان کے انٹیلیکچوئل لیول کا یہ حال ہے کہ 2010ء میں انہوں نے ’HAARP‘ کے نام سے ڈان میں ایک مضمون لکھا کہ الاسکا میں ایک فزکس ریسرچ پراجیکٹ کی بنیاد پر شائد امریکہ کے پاس یہ صلاحیت آ گئی ہے کہ وہ مصنوعی طور پر دنیا بھر میں زلزلے لے آئے۔ عطا الرحمان نے اس کو پاکستان میں 2010ء کے تباہ کن سیلابوں سے جوڑنے کی سازشی تھیوری بھی پیش کی۔
لاہور کی انجینئرنگ یونیورسٹی کے فیصل آباد، گوجرانوالہ، کالا شاہ کاکو اور نارووال میں پہلے ہی سب کیمپس موجود ہیں۔ ان کی ترقی کا منصوبہ بنا لیا جاتا مگر اس کی بجائے نئی یونیورسٹی میں نئی ٹیکنالوجی کے نام پر اربوں روپے کا ضیاع عطا الرحمان کا حقیقی کارنامہ ہے۔
ایسا ہی ایک منصوبہ گورنمنٹ کالج لاہور میں فارن فیکلٹی پروفیسروں کو تعینات کرنے کا بنایا گیا تھا۔ وہ پروفیسر تو کیا آتے کچھ پروفیسروں نے آئے بغیر سالوں تک 60,000 ڈالر سالانہ کی تنخواہ گھر بیٹھے وصول کی۔ یہ سکینڈل بھی خوب اخبارات کی زینت بنا۔
عطاالرحمان کے انٹیلیکچوئل لیول کا یہ حال ہے کہ 2010ء میں انہوں نے ’HAARP‘ کے نام سے ڈان میں ایک مضمون لکھا کہ الاسکا میں ایک فزکس ریسرچ پراجیکٹ کی بنیاد پر شائد امریکہ کے پاس یہ صلاحیت آ گئی ہے کہ وہ مصنوعی طور پر دنیا بھر میں زلزلے لے آئے۔ عطا الرحمان نے اس کو پاکستان میں 2010ء کے تباہ کن سیلابوں سے جوڑنے کی سازشی تھیوری بھی پیش کی۔
گو عطا الرحمان نے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے مگر ان کی سوچ اور پانی سے گاڑی چلانے والے ’انجینئر‘ کی سوچ میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ فرق یہ ہے کہ عطا الرحمان کو ریاست کے پیسے ضائع کر کے خوب مزا آتا ہے۔ پانی سے گاڑی چلانے والے انجینئر کی طرح پیسے بچانے کا خواب نہیں دکھاتا۔ پیسے لگانے کا کام انہیں خوب آتا ہے۔ اس میں سے کتنی کرپشن ہوئی اس پر بھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔
جعلی سائنسدان نہ صرف پیسے ضائع کرتے ہیں بلکہ لوگوں کو سازشی تھیوریوں کے ذریعے کنفیوز بھی کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عطا الرحمان نے اپنے ’سائنسی‘ ادارے ایچ ای جی ریسرچ انسٹیٹوٹ آف کیمسٹری کراچی کے لئے جو اربوں روپے کی فنڈنگ حاصل کی ہوئی ہے، جس کا آڈٹ ایچ ای سی کے کنٹرول سے باہر کر دیا گیا ہے، کا پاکستان کی سائنس اور ٹیکنالوجی کو حقیقی معنوں میں کوئی فائدہ ہوا ہے؟
انہی کی شہ پر عمران خان نے بھی القادر یونیورسٹی سوہاوہ (جہلم) کی تعمیر شروع کی تھی۔ یہاں روحانیت پڑھائی جانی تھی۔ اس یونیورسٹی کے بورڈ میں عمران خان، فرح شہزادی، بشری ٰبی بی، بابر اعوان اور ذوالفقار زلفی جیسے روحانی رہنماشامل ہیں۔ اس وقت کل طالب علم 37 ہیں۔ اب تک اس یونیورسٹی پر عمران خان ایک ارب روپے خرچ کر چکے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ باتونی سائنس دان عطاالرحمان کس طرح شریف فیملی کو اپنے جال میں پھنسانے میں کامیاب ہوتے ہیں…یا امید کی جا سکتی ہے کہ اس قدر احتجاج کے بعد ایسے کاروباری سائنس دانوں سے نجات مل جائے گی جو ٹیکس دہندگان کے اربوں روپے دریا برد کر چکے ہیں۔