Baam-e-Jahan

قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی: اعلی ارمان اور ذہنی بحران


یونیورسٹی ایسے ہی روشن دماغ افراد پیدا کرتی ہے جو باہر معاشرے میں جا کر اس کی فکر و نظر اور عمل میں تبدیلی لاتے ہیں۔ مگر صد آفسوسں کے آئی یو میں اس کے برعکس عمل ہوا ہے۔ یہاں پر یونیورسٹی کا ذہن باہر جانے کے  بجائے باہر کے معاشرے کی پوری ذہنیت اور اس سے وابستہ غلاضتیں اندر در آتی ہے۔ نتیجے میں یونیورسٹی ایک ذہن ساز ادارے کی بجائے ہر پست سوچ کے مظاہرے کا ایک پولو گراونڈ بن کے رہ گیا ہے۔

تحریر: عزیز علی داد


میں نےبار ہا مختلف پبلک فورمز اور متعدد مرتبہ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں مختلف تقاریب میں کہ چکا ہوں کہ یونیورسٹی کا مقصد معاشرے کے پیدا کردہ ذہنوں کو یونیورسٹی میں داخل کر کے ان کی پرانی شخصیت کو توڑ کر ایک نئی شخصیت کی تعمیر ایک نئے فکر کے ساتھ کرنا ہوتا ہے۔ ایسی شخصیت تبھی تشکیل پاتی ہے جب طالب علم  کسی دوسروں کی بنائی ہوئی سوچ کی بیساکھیوں کو توڑ کر اپنی فکر پیدا کرتا ہے۔ یوں علم انسان کو اپنی طفلی کیفیت سے نکلنے میں مدد دیتا ہے۔

معروف جرمن فلسفی ایمانوئیل کانٹ فکر کے طفلی سہارے سے نکلنے کے عمل کو فکری بالغ پن کا نام دیتا ہے۔ اور اسی عمل سے ہی جہالت کی تاریکیوں کو چیرتی ہوئی روشن خیالی کی ضیائیں پھوٹتی ہے۔

یونیورسٹی ایسے ہی روشن دماغ افراد پیدا کرتی ہے جو باہر معاشرے میں جا کر اس کی فکر و نظر اور عمل میں تبدیلی لاتے ہیں۔ مگر صد آفسوسں کے آئی یو میں اس کے برعکس عمل ہوا ہے۔ یہاں پر یونیورسٹی کا ذہن باہر جانے کے  بجائے باہر کے معاشرے کی پوری ذہنیت اور اس سے وابستہ غلاضتیں اندر در آتی ہے۔ نتیجے میں یونیورسٹی ایک ذہن ساز ادارے کی بجائے ہر پست سوچ کے مظاہرے کا ایک پولو گراونڈ بن کے رہ گیا ہے۔

اس سارے عمل میں یونیورسٹی انتظامیہ کو چاہئے تھا کہ وہ ثقافتی رجعت پسندوں، سٹیٹس کو کے حامی اداروں، فرقہ فرستوں، علاقہ پرستوں اور خرد دشمنوں کی ہاں میں ہاں ملانے کی بجائے یونیورسٹی کےدائرہ عمل، علم کی پیداوار میں اس کے کردار اور علم اور معاشرے کے درمیان تعلق کے متعلق ایک اعلامیہ کتابچے کی صورت میں طلبا، فیکلٹی اور دیگر لوگوں میں تقسیم کرتی تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ یونیورسٹی کیا نہیں ہے۔

 یہی یونیورسٹی کا ذہنی چارٹر ہوتا۔ مگر آپ نے چارٹر کے سائز کا حیا نوٹس نکلا۔ اس سلسے میں سب سے اہم بات جو یاد رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ یونیورسٹی کیا ہے کو بیان کرنے سے پہلے معلوم ہونا چاہئے کہ یونیورسٹی کیا نہیں ہے۔ یونیورسٹی کسی کا گھر نہیں جو چادر اور چاردیواری کے نام پر لوگوں کو کنٹرول کرے، یہ کسی کی مسجد نہیں جہاں سے خطبے اور فتوے جاری ہوں، یہ کوئی ثقافتی ٹھیکیدار نہیں جو غیرت کے سرٹیفیکیٹ تقسیم کرے، یہ کسی قبیلہ کا جرگہ یا لشکر نہیں ہے اور نہ ہی یہ لوگوں کی ذاتی تشہیر کا کوئی ادارہ ہے۔ اس کا  کام  نہ صرف علم  کی ترویج  ہے بلکہ علم پیدا  کرنا ہے۔ مگر مجال ہے کسی علمی شخصیت کو یہاں مدعو کیا گیا ہو۔ یہاں اسکالر کے علاوہ سارے سوکھے لر آتے رہتے ہیں اور اپنی لن ترانیاں سناتے رہتے ہیں۔

اس میں سب سے بڑا  قصور وائس چانسلر کا ہے۔ وہ جامعہ قراقرم کو منیج کرنے کی بجائے دوسرے معاملات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جب ایک لڑکی نےسٹاف کی طرف سے ہراسانی کی شکایت کی تو اس لڑکی کا ساتھ دینے کی بجائے سٹاف کے خالف احتجاج کرنے والے طلبا کو دھمکی دی گئی ۔کبھی خواتین کا الگ کیمپس اور کبھی ٹک ٹاک پہ پابندی۔ کبھی لڑکیوں کے تنگ لباس پہ نگاہ، جب طالبات کے ناچنے پر ان کو گالیاں دیں گئی تو صاحب خاموش ہوگئے اور یوں ثقافتی رجعت پسندوں کی دبے لفظوں حوصلہ افزائی کی گئی۔

نتیجہ میں قراقرم یونیورسٹی روشن خیالی کی بجائے دقیانوسی ذہنوں کی آماج گاہ بن کے رہ گئی ہے۔ اس سارے عمل میں صرف طلبا اور طالبات ہی پس رہے ہیں۔

کل سے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے متعلق خبریں گردش کر رہی ہےکہ یونیورسٹی کے پاس ملازمین کو تنخواہ دینےکے پیسے نہیں ہیں۔ اس کے قصوروار نہ فیکلٹی ہیں اور نہ ہی طلبا و طالبات اور نہ گلگت بلتستان کی حکومت کو اس میں دوش دیا جا سکتا ہے۔ بلکہ اس کےمکمل ذمہ دار وائس چانسلر اور غیر فیکلٹی انتظامیہ ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ کو چاہئے تھا کہ وہ ثقافتی رجعت پسندوں، سٹیٹس کو کے حامی اداروں، فرقہ فرستوں، علاقہ پرستوں اور خرد دشمنوں کی ہاں میں ہاں ملانے کی بجائے یونیورسٹی کےدائرہ عمل، علم کی پیداوار میں اس کے کردار اور علم اور معاشرے کے درمیان تعلق کے متعلق ایک اعلامیہ کتابچے کی صورت میں طلبا، فیکلٹی اور دیگر لوگوں میں تقسیم کرتی تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ یونیورسٹی کیا نہیں ہے۔

دنیا کی ساری یونیورسٹیوں میں انتظامیہ فیکلٹی کو سہولت بہم پہنچانے کے لیے ہوتی  ہے تاکہ اساتذہ یکسوئی کے ساتھ طالب علموں کی تعلیم و تربیت کر سکیں۔ مگر صاحب! ہم گلگت بلتستان والوں کی افسرانہ بھرم مارنےکی نفسیات کا کیا کیجئے۔ جب تک افسری کا بھرم نہ ماریں گے ہم ذہنی طور پر ڈسٹرب رہتے ہیں۔

مضبوط انتظامیہ ہمیشہ فیکلٹی اور طلبا کو کمزور کرتی ہیں۔اب یونیورسٹی کو پندرہ  کروڑ خسارے کا سامنا ہے تو وی سی سے سوال ہے کہ آپ نے اس کے متعلق پلاننگ نہیں کی تھی؟ آپ کا پلاننگ ڈپارٹمنٹ کیا کر رہا تھا؟

کیا آپ نے اپنی سرگرمیوں کا حساب کتاب کیا اور آئندہ پانچ سال کی پروجیکشن کی؟

آپ کے پاس آمدن اور اخرجات کاسالانہ گوشوارہ ہے؟

کیا آپ ملازمت پہلے سے بنائے ہوئے پلان کے تحت اعلان کرتے ہیں یا ایک جبلی فیصلہ آپ کی طرف سے صادر ہوتا ہے؟بندہ ایک گھرچلا رہا ہوتا ہے تو گھرکی معاشی حالت کا اندازہ ہوتا جاتا ہے۔آپ تو وی سی ہیں اور ہم سے زیادہ پڑھےلکھےہیں۔آپ کو کیوں خبر نہیں تھی؟

 باقی اس بحران کا الزام گلگت بلتستان کی حکومت کو دینا سراسر زیادتی ہے کیونکہ یونیورسٹی وفاق کے ماتحت ہے۔

ان سب چیزوں کے باوجود اب بھی اس بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ وہ کیسے اس پر آئندہ ہم تفصیل سےلکھیں گے مگر اس  سے پہلے ضرورت اس بات کی ہےکہ یونیورسٹی اور معاشرے میں اس کے کردار کو بیان کیا جائے۔ انشا اللہ  موجودہ دنیا کے بدلتے ہوئے علمی تناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سلسلے میں ایک قسط وار تحریری سلسلے کی ابتدا کی جائے گی تاکہ یونیورسٹی کی تعریف اس کے کردار کے متلعق معاشرے میں سوچنے والے لوگوں میں ایک مکالمہ پیدا ہوسکے۔

بدقسمتی  سے اس مکالمہ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثقافتی رجعت پسندوں اور عقلی لحاظ سے  غلط زمانی کے شکار لوگ ہیں اور یہی ذہنیت قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے بحران کی وجہ بھی ہے۔

عزیزعلی داد ایک سماجی مفکر ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اور پولیٹکل سائنس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہدی نیوز، فرائڈے ٹائمز، ہائی ایشیاء ہیرالڈ اور بام جہاں میں مختلف موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر بے شمار مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ ؑعزیز جرمنی کے شہر برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے