Baam-e-Jahan

کھلا خط بنام چیئرمین HEC


تحریر: ڈاکٹر اصغر علی دشتی


جناب چیئرمین HEC

 20 جون 2023ء کو "On Campus Celebrations of Events and Festivals” کے عنوان کے تحت کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی جانب سے تضادات سے بھرپور ایک مراسلہ جاری کیا گیا۔ مراسلہ میں جہاں ایک جانب ”ہندو فیسٹیول ہولی“ پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے وہیں دوسری جانب ثقافتی، لسانی، مذہبی تنوع کو ایک روادارانہ سماج کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ کمیشن کا یہ مراسلہ نہ صرف مذہبی تعصب کے تاثر کا اظہار کرتا ہے بلکہ یہ کمیشن کے فکری بانجھ پن اور علمی و دانشوارانہ دیوالیہ پن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کمیشن اپنے مراسلہ میں تحریر کرتا ہے کہ کمیشن اعلیٰ تعلیم کی بہتری کے لیے اپنی ثقافت (اگر اس کا مطلب پاکستان میں بسنے والے لوگوں کی ثقافت سے ہے) اقدار، روایات اور قومی نظریہ کے تحفط کے مطابق پالیسیوں کی تشکیل کرتا ہے۔

جناب چیئرمین!

 کیا پاکستان میں بسنے والے ہندو اور دیگر اقلیتیں پاکستانی قوم کا حصہ نہیں؟ کیا پاکستان کے ہندو، سکھ، مسیحی، پارسی اور بہائی پاکستانی ثقافت سے کوئی تعلق نہیں رکھتے؟ کیا ہزاروں سال سے اس خطہ کے رہنے والوں کی ثقافت اور اقدار بے معنی ہیں؟ فضول ہیں؟

 کمیشن کے مراسلہ سے گمان گزرتا ے کہ کمیشن بطور ادارہ ”ہولی“ جیسے فیسٹیول کو "Criminalize” کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان بھر کی یونیورسٹیوں کو اس فیسٹیول سے فاصلہ رکھنے جیسی ہدایات دی جاتی ہیں۔

جناب چیئرمین!

 بطور سربراہ HEC کیا آپ یا آپ کے ادارہ سے وابستہ افرادکے علم میں یہ  بات نہیں ہے کہ امریکہ اور یورپ بھر کی یونیورسٹیوں میں عید منائی جاتی ہے؟ باقاعدہ تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ جہاں دیگر طلبہ مسلم طلبہ کے ساتھ عید کی تقریبات میں حصہ لیتے ہیں؟ کیا آپ کے علم میں یہ بات بھی نہیں کہ امریکہ کے بہت سارے اسکولوں میں عید کی سرکاری تعطیلات ہوتی ہیں؟

جناب چیئرمین!

 آپ سمیت آپ کے ادارہ سے وابستہ فیصلہ کنندگان کو ایک بار آئین پاکستان کے مطالعہ کی شدید ضرورت ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 20 مذہبی آزادیوں (بشمول مذہبی تقریبات) کی اجازت دیتا ہے۔ نیز اقوام متحدہ کا ”یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس“ (جس پر پاکستان نے بھی دستخط کیے ہیں) کے آرٹیکل 18 کو فریم کرکے کمیشن کی مرکزی عمارت میں ٹانگ دیجیے تاکہ آپ کے ادارہ کے بزرجمہروں اور افلاطونوں کو کوئی سبق حاصل ہوسکے۔

جناب چیئرمین!

 مذکورہ  مراسلہ نہ صرف HEC کی جگ ہنسائی کا سبب بن رہا ہے بلکہ HEC کی کوتاہ قامتی کی بھی نشانی ہے۔ لہٰذا اس مراسلہ کو منسوخ کرتے ہوئے اسے واپس لیا جائے۔ آپ کا یہ اقدام صحیح معنوں میں ایک متنوع و روادار سماج کی تشکیل میں معاون ثابت ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں