راولپنڈی کی ملٹری کورٹ نمبر 32 نے اگست 1984 کو زلفی بخاری کے والد واجد حسین بخاری اور چچا منظور حسین بخاری کو 14-14 سال قید بمعہ تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد ضبطگی کی سزا سنائی، زلفی بخاری کے والد اور چچا برطانیہ میں رہنے کی وجہ سے ان سزاؤں سے بچ گئے
یونان میں کشتی ڈوبنے سے تین سو پاکستانی جان بحق ہوئے تو سوشل میڈیا پر زلفی بخاری کا نام وائرل ہونا شروع ہوا، آخر زلفی بخاری کا انسانی اسمگلنگ کے دھندے سے کیا تعلق ہے.
80 کی دہائی میں زلفی بخاری کے والد واجد حسین بخاری اور چچا منظور حسین بخاری کی مشترکہ کمپنی "المرتضیٰ ایسوسی ایٹس” نے 2,300 پاکستانیوں کو لیبیا کی چند کمپنیوں میں بطور لیبر بھجوایا۔ مذکورہ افراد کے جانے کے کچھ ہی عرصے بعد ان کی خاندانوں نے احتجاج کیا کہ لیبیا جانے والے افراد سے رابطہ نہیں ہو رہا ہے، اور المرتضیٰ ایسوسی ایٹس سے رابطہ کیا ہے لیکن وہ بھی کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دے رہے ہیں۔
اس حوالے سے اس وقت کے صدر ضیاء الحق کو انٹیلیجنس معلومات مل رہی تھیں اور لبیا کے صدر کرنل قذافی اور ذوالفقار بھٹو کے گہرے تعلقات پھر "الذوالفقار” تنظیم کی ابھرتی طاقت کو دیکھ کر ضیاء الحق کو اپنی پریشانی لاحق ہوئی اور انہی دنوں میں لبیا میں کچھ پاکستانیوں کی پراسرار اموات کی اطلاعات آنا شروع ہو گئیں- متوفین کے جسد خاکی پاکستان نہیں آسکے تو صدر نے اس معاملے کی تحقیقات کے لئے اپنی کابینہ کے ایک وزیر جناب غلام دستگیر خان کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی.
کمیٹی نے تحقیقات شروع کیں، پاکستان میں لیبیا کے سفارت خانے کو آگاہ کیا گیا اور کمیٹی ممبران کا ایک وفد لیبیا بھی گیا- 9 ماہ کی تحقیقات میں حقائق سامنے آ گئے جن کے مطابق لیبیا کی جن کمپنیوں کی ملازمت پر لیبر کو بھیجا گیا تھا وہ جعلی تھیں اور حقیقتاً ان کا کوئی وجود نہیں تھا-
لیبیا کے کچھ بدنام زمانہ جرائم پیشہ افراد نے پاکستان سے جن لوگوں کو المرتضیٰ ایسوسی ایٹس کے ذریعے لیبیا منگوایا وہ انسانی اسمگلنگ کے گروہوں سےمنسلک تھے جو تیسری دنیا کے غریب ممالک کے لوگوں کو سہانے خواب دکھا کر بلواتے اور وہاں مشقّت لیتے اور ان بے چاروں پر بدترین تشدد بھی کرتے-
تحقیقات کی روشنی میں ایف آئی اے پاسپورٹ سیل راولپنڈی نے انسانی اسمگلنگ کیس بنا کر ایف آئی آر درج کیں اور راولپنڈی کی ملٹری کورٹ نمبر 32 نے اگست 1984 کو زلفی بخاری کے والد واجد حسین بخاری اور چچا منظور حسین بخاری کو 14-14 سال قید بمعہ تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد ضبطگی کی سزا سنائی، زلفی بخاری کے والد اور چچا برطانیہ میں رہنے کی وجہ سے ان سزاؤں سے بچ گئے.
زلفی بخاری کے والد اور چچا نے انسانی اسمگلنگ کے دھندے سے کمائی ہوئی دولت سے برطانیہ میں جائدادیں خریدیں۔
اور وہاں اپنی بیٹیوں کے نام سے دو کمپنیاں "معصومہ انویسٹمنٹ کمپنی لمیٹڈ” اور "سکینہ انویسٹمنٹ لمیٹڈ” بھی قائم کیں-
زلفی بخاری اور اس کی دونوں بہنوں معصومہ بخاری اور سکینہ بخاری کی مشہور زمانہ پانامہ پپیرز میں تین آف شور کمپنیاں بھی سامنے آئیں تھیں۔
اس طرح زلفی بخاری کا خاندان غریب انسانوں کا سودا گر بن کر مال کماتا رہا اور زلفی بخاری نے بھی اپنے خاندانی دھندے سے خوب مال بنایا، جب بھی انسانی اسمگلنگ کا تاریخ میں ذکر آئے گا زلفی بخاری کے خاندان کا نام سر فہرست ہوگا.