Baam-e-Jahan

جہالت کا تصادم


جہالت کا تصادم  (Clash of Ignorance)  یا تہذیبوں کا تصادم (Clash of Civilization)

ایڈورڈ سعید (Edward Said)

22 اکتوبر 2001ء

ترجمہ: زبیر توروالی 


سویت یونین ٹوٹنے کے بعد 1990ء کی دہائی میں امریکا میں پولیٹیکل سائنٹسٹ سیموئیل ہنٹنگٹن نے ”تہذییوں کے تصادم“ کا نیا نظریہ پیش کیا تو امریکا اور یورپ سمیت مسلم دنیا میں بھی یہ زیر بحث رہا۔ مسلم دنیا میں پہلے سے ہی چھوٹے چھوٹے گروہ  اس تصادم والی پالیسی کو اپنا چکے تھے۔ لہذا ان کو بھی یہ نظریہ گویا نئی اور تازی خوراک ملی لہذا انہوں نے اس کو اپنی پوری تصادمی سیاست کو چمکانے کے لئے استعمال کیا۔ یہاں پاکستان میں ایک نرگسی مذہبی سیاسی جماعت نے اس نظریے کو قبول کیا اور اس کا پرچار کرنے لگی۔ اس سلسلے  میں ایک لطیفہ سنانے کے بعد آپ کو اصل مضمون کی طرف لے جاتا ہوں۔

2002ء کے عام انتخابات کے لئے جنرل مشرف نے  چھ سات جماعتوں کا ایک اتحاد بنایا تھا اس  اتحاد کے تحت یہاں بحرین میں ایک جلسہ ہونا تھا جس میں اس اتحاد کے کچھ اکابرین نے آنا تھا۔ ہم بھی بس کسی کی یاری دوستی میں آکر اسی اتحاد کے ساتھ ہوگئے اگرچہ نیم دلی سے تھے تاہم دوستی کی مروت بھی پالنی تھی۔ ہوا یوں کہ جب جلسہ شروع ہوا تو جیسا کہ رواج ہے اکابرین کی تقریروں سے پہلے مقامی لوگ تقریر کرتے ہیں۔ ایک  مقامی شخصیت کو باری دی تو وہ  اٹھے اور عام لوگوں کے اس جلسے سےمخاطب ہوئے۔ انہوں نے سموئیل ہنٹنگٹن اور اس کی کتاب clash of civilization  کا بار بار حوالہ دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مغرب اور اسلام میں یہ تصادم بس فطری ہے اور ہوا چاہتا ہے۔ جب انہوں نے ہنٹنگٹن Huntington کا لفظ بار بار بولا تو میرے پاس بیٹھے ایک عام دیہاتی مگر دانا شخص نے توروالی میں مجھے کہا، ”یہ بندہ کیا ٹنگ ٹنگ کرتا ہے۔ اس کی باتیں پسند نہیں آئیں“۔ میری ہنسی چھٹ گئی  اور جلسے کے اس ہال سے نکل کر باہر آیا۔

سیموئل ہنٹنگٹن نے ”تہذیبوں کے تصادم“ کے نام سے جو نظریہ پیش کیا اس پر کئی مفکرین نے تنقید بھی کی جن میں نوم چومسکی، ایڈورڈ سعید، تیموتھی، امرتیا سین وغیرہ نمایاں نام  شامل ہیں۔ نوم چومسکی نے اس نظریے کو امریکا کو دنیا میں اپنا راج قائم کرنے کے لئے جواز کہا۔ ہندوستانی نژاد معاشیات میں نوبل پرائز حاصل کرنے والے امرتیا سین نے سموئل کو مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے بیچ تنوع سے نابلد کہا۔ ایڈورڈ سعید ( Edward Said) نے اس پورے نظریے کی دھجیاں ایک ہزار الفاظ کے ایک مضمون” جہالت کا تصادم “ (Clash of Ignorance)  میں اڑا دیں جو اکتوبر 2001ء میں شائع ہوا۔ نیچے اس مضمون کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے

سیموئل ہنٹنگٹن (Samuel Huntington)  کا مضمون "تہذیبوں کا تصادم؟” خارجہ امور کے سمر    1993ء کے شمارے میں شائع ہوا، جہاں اس نے فوری طور پر حیرت انگیز توجہ اور ردعمل حاصل  کیا۔ چونکہ اس کے مضمون کا مقصد امریکیوں کو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی سیاست میں "ایک نئے مرحلے” کے بارے میں ایک اصل تھیوری/ تھیسیز  فراہم کرنا تھا، اس لیے ہنٹنگٹن کی دلیل کی شرائط  غالب طور پر بڑی، جرات مندانہ، حتیٰ کہ بصیرت سے بھر پور لگ رہی تھی۔ اس کی نظر پالیسی سازی کی صفوں میں حریفوں، فرانسس فوکویاما ، جیسے نظریہ سازوں اور ان کے "تاریخ کا خاتمہ” (end of history) کے نظریات کے ساتھ ساتھ ان  گروہوں  پر تھی جنہوں نے عالمگیریت اور  قبائلیت کے خاتمے  اور ریاست کے انتشار کا جشن منایا تھا۔ لیکن وہ، ہنٹنگٹن کے نزدیک   اس نئے دور کے صرف کچھ پہلوؤں کو سمجھ پائے تھے۔ ہنٹنگٹن  "اہم، واقعی ایک مرکزی، پہلو” کا اعلان کرنے والے تھے کہ "آنے والے سالوں میں عالمی سیاست کیا ہونے کا امکان ہے۔”  اس نے بلا جھجک اس پر زور دے کر کہا :

”یہ میرا مفروضہ ہے کہ اس نئی دنیا میں تنازعات کا بنیادی ذریعہ بنیادی طور پر نظریاتی یا بنیادی طور پر معاشی نہیں ہوگا۔ بنی نوع انسان کے درمیان عظیم تقسیم اور تنازعات کا غالب ذریعہ ثقافتی ہوگا۔ قومی ریاستیں عالمی معاملات میں طاقت ور  کردار کی حامل رہیں گی  لیکن عالمی سیاست کے بنیادی تنازعات قوموں اور مختلف تہذیبوں کے گروہوں کے درمیان ہوں گے۔ تہذیبوں کا تصادم عالمی سیاست پر حاوی ہو جائے گا۔ تہذیبوں کے درمیان فالٹ لائنز (faultlines) مستقبل کی جنگوں کی لکیریں ہوں گی۔”

اس کے بعد آنے والے صفحات میں زیادہ تر دلائل ہنٹنگٹن کے "تہذیب کی شناخت(civilizational identity) ”  اور "سات یا آٹھ بڑی تہذیبوں کے درمیان معاملہ” کے مبہم تصور پر انحصار کرتے ہیں، جن میں سے دو:  اسلام اور مغرب کے درمیان تنازعہ،  اس کی توجہ کا مرکزی اور بڑا حصہ حاصل کرتا ہے۔ اس جنگجو قسم کی سوچ میں ہنٹنگٹن  معروف مستشرق برنارڈ لیوس کے 1990 کے ایک مضمون پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں جس کے نظریاتی رنگ  اور تعصب اس کے  مضمون کے عنوان ’’مسلم غیض و غضب کی جڑیں‘‘ سے عیاں ہیں۔ دونوں مضامین میں، "مغرب” اور "اسلام” نام  سے بہت پیچیدہ اور عظیم تصوّرات کو بڑی  بے احتیاطی سے  تشخص دیا گیا  ہے گویا شناخت اور ثقافت جیسے بڑے پیچیدہ معاملات کارٹونوں کی  جیسی دنیا میں موجود ہیں جہاں دو کارٹون   پوپے (Popeye)  اور بلوٹو (Bluto)  ایک دوسرے کو بے رحمی سے مارتے ہیں۔ جہاں  ایک ہمیشہ سے زیادہ تقدیس  اور مکاری سے اپنے مخالف پر بالادستی حاصل کرتا ہے۔ یقینی طور پر نہ ہی ہنٹنگٹن اور نہ ہی لیوس کے کو  ہر تہذیب کی داخلی حرکیات اور تکثریت (plurality) کو سمجھنے کے لیے زیادہ وقت ملا ہے  یا اس حقیقت  کو جاننے کے لیے کہ زیادہ تر جدید ثقافتوں میں سب سے بڑا مقابلہ ہر ثقافت کی تعریف یا تشریح سے متعلق ہے۔ ان کے ہاں  اس ناخوش گوار امکان کو پرکھنے  کے لیے بھی وقت نہیں تھا  کہ    ڈیماگوجی ( جذبات اور تعصبات کو ابھارنے)  اور نری جہالت ایک پورے مذہب یا تہذیب کی اپنے طور پر نمائندگی کرنا ہے۔ مثلاً دوئی میں یقین کے ساتھ کہا جائے کہ  نہیں مغرب بس  مغرب ہے، اور اسلام اسلام (اور ان دونوں میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ اس طرح پیچیدہ، متنوع اور تکثیری تہذیبوں کو ان تنگ دامن اصطلاحات  کی مدد سے واضح کیا جانا ہی نری جہالت اور تعصبات و جذبات کو ابھارنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے)

ہنٹنگٹن کا کہنا ہے کہ مغربی پالیسی سازوں کے لئے چیلنج یہ ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ مغرب مضبوط ہو اور باقی تمام اقوام خصوصاً اسلام   کو نکیل ڈالے۔ زیادہ پریشان کن ہنٹنگٹن کا یہ مفروضہ ہے کہ اس کا نقطہ نظر درست ہے باوجود اس کے   وہ  تمام عام وابسطگیوں ، پیچیدگیوں  اور پوشیدہ وفاداریوں سے ہٹ کر پوری دنیا کا جائزہ لینا  چاہتا ہے۔ وہ باور کرانا چاہتا ہے  گویا باقی سب لوگ  ان جوابات کی تلاش میں سرگرداں  گھوم رہے ہیں جو اسے پہلے ہی مل چکے ہیں۔

 درحقیقت، ہنٹنگٹن ایک نظریہ ساز ہے اور کو ئی بھی نظریہ گڑھ لیتا ہے۔ وہ کوئی ایسا شخص جو "تہذیب” اور "شناخت” کو ان چیزوں میں تبدیل کرنا چاہتا ہے جو وہ نہیں ہیں۔ وہ ان کو  بند، مہر بند اشیاء کی مانند بناتا ہے کہ وہ کبھی متحرک نہ رہے ہو    اور ان میں  بے شمار اندرونی اور مخالف دھارے نہیں رہے ہو۔ وہ شناخت اور تہذیب کو تاریخ سے الگ کرتا ہے جہاں صدیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔

ہنٹنگٹن یہ خاطر میں ہی نہیں لاتا کہ  تاریخ نے مذہبی جنگوں اور سامراجی یلغار کو روکا بھی ہے  ۔ وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ انسانی  تاریخ تہذیبوں اور شناختوں کے بیچ روابط ، تبادلہ، اشتراک  اور افزائش کا ذریعہ بھی رہی ہے۔ تاریخ کے اس پہلو کو نظرانداز کرکے مضحکہ خیز اور کسری  طریقے   سے  جنگ کو اجاگر کرنے کی جلدی میں آگے بڑھا جاتا ہے  کہ "تہذیبوں کا تصادم” حقیقت ہے۔

 جب  1996 میں اسی عنوان سے اپنی کتاب شائع کی  تو ہنٹنگٹن نے اپنی  دلائل کو کچھ اور باریک بینی اور  بہت سے حاشیے  دینے کی کوشش کی۔ تاہم  اس نے جو کچھ کیا  خود کو مزید  الجھایا اور یہ ظاہر کیا کہ وہ کیسا گھٹیا  لکھاری اور  بھدا مفکر تھا۔

مغرب بمقابلہ بقیہ دنیا (سرد جنگ کی طرح کی اصطلاح)  کا بنیادی نمونہ وہی  رہا  اور یہی وہ چیز ہے جو 11 ستمبر کے خوف ناک واقعات کے بعد سے بیشتر طور پر مکارانہ اور مخفی یا واضح طور پر زیر بحث رہا ہے۔ انتہا پسند عسکریت پسندوں کے ایک چھوٹے گروپ کی طرف سے بڑے پیمانے پر قتل کو ہنٹنگٹن کے نظریے  کے ثبوت میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ دیکھنے کے بجائے کہ یاصل ماجرا  کیا ہے – مجرمانہ مقاصد کے  حصول کے لئے بڑے نظریات کو پاگل جنونیوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کے حوالے کرکے باقیوں کو اسی عدسے سے دیکھا گیا۔

اس عمل کو بڑی سطحی اور ڈھیلا لیا گیا۔ بین الاقوامی معروف شخصیات جیسے سابق پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے لے کر اطالوی وزیر اعظم سلویو برلسکونی تک نے اس چھوٹے گروہ کی کاروائی  کو اسلام کے مشکلات سے تعبیر کیا۔ Silvio Berlusconi  نے تو ہنٹنگٹن کے نظریات کو مغرب کی برتری کو ثابت کرنے کے لئے چیخ چیخ کر استعمال کیا اور طعنے دئیے کہ  کس طرح ”ہمارے “پاس    موزارٹ اور مائیکل اینجیلو ہیں ( یعنی تہذیب یافتہ ہیں)  اور  ”ان“ کے پاس نہیں ہے ۔ (برلسکونی نے  "اسلام” کی توہین پر نیم دلی سے معافی مانگ لی ہے۔)

مصنف کے بارے میں :

زبیر توروالی محقق، لکھاری، سماجی اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں۔ وہ گزشتہ 15 سالوں سے تحقیق کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بحرین سوات میں قائم پورے شمالی پاکستانی کی زبانوں، ادب اور کلچر و تعلیم کے لئے کام کرنے والی تنظیم ادارہ برائے تعلیم و ترقی ( اب ت IBT) کے بانی اور سربراہ ہیں۔ زبیر توروالی انگریزی، اردو اور توروالی زبان میں لکھتے ہیں۔ اب تک ان کی ایک انگریزی کتاب، درجن سے زیادہ تحقیقی مقالے اور سینکڑوں مضامین انگریزی اور اردو میں شائع ہوچکے ہیں۔ زبیر توروالی نے چند بین الاقوامی تحقیقی کتب میں ابواب بھی لکھے ہیں۔ وہ آن لائن انگریزی و اردو مجلے ”وی ماؤنٹینز“ کے مدیر اور مینیجر ہیں۔ اردو مجلے سربلند کے بھی مدیر ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں