Baam-e-Jahan

گلگت بلتستان کی سیاحت پر بھی اجارہ داری کی کوششیں


تحریر: صفی اللہ بیگ


سیاح خصوصا ملک کے مختلف شہروں سے آنے والے  گلگت بلتستان میں ذاتی ملکیت، مقامی رسم و رواج اور ماحولیات کا احترام، وہاں کے انسانی رشتوں کے طور طریقے سمجھنے اور سیکھنے کے لیے نہیں آتے ہیں۔ بلکہ وہ اپنی پیسوں پر چند دونوں میں زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونے اور خرچ ہونے والے رقم سے پورا پورا فائدہ اٹھانے آتے ہیں۔

دوسری طرف سیاحوں کی ضرورت کی اشیا اور خدمات فراہم کرنے والے کاروباری بھی یہی کوشش کرتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ سیاحوں کو اپنا مال اور خدمات فروخت کرسکیں اور اپنے منافع میں اضافہ کرسکیں۔

 کچھ حضرات اس طرح کے لوگوں کو واعظ و نصیحت کرتے ہیں کچھ ان کو ڈنڈے مارنے کی بات کرتے ہیں ۔ انفرادی رویوں کو اپیلوں سے، بھاشن سے یا ڈنڈے سے درست نہیں کیا جاسکتا ہے۔

بڑے، بنیادی اور پالیسی سے متعلق سوالات اور مسائل کو در گزر کرکے ایسے چھوٹے انفرادی یا پھر عارضی نوعیت کے مسائل کو لے کر شور اور ہنگامہ کرنا عین سرمایہ دارانہ مارکیٹ اور نیولبرل نظام کے منشا کے مطابق  عمل ہوتا ہے مثلا پلاسٹک کے پھیلاؤ اور گندگی پر مہم چلانا ۔ یہ عمل سرمایہ داروں کو کاروبار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اچھا پلاسٹک کا تھیلا نہیں یہ لو کپڑے کا تھیلا یعنی لوگوں کے جیبوں سے مزید رقم نکلوانا۔

گلگت بلتستان خصوصا ہنزہ میں بڑے اور اجارہ دار ہوٹل دھیرے دھیرے سیاحت کی مارکیٹ اور فدرتی وسائل یعنی زمین، پانی اور سیاحت کے اہم مقامات پر انتظامیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ سے قابض ہو رہے ہیں اسی طرح حال ہی میں انتظامیہ نے homestay  پر ایک من گھڑت سیکورٹی کی کہانی بنا کر پابندی لگا دی ہے۔ جس کا مقصد مقامی لوگوں کو سیاحت کی مارکیٹ سے ہمیشہ کے لئے نکال باہر کرنا ہے اور اس پر بڑے ہوٹلوں کو قبضہ دینا ہے تاکہ یہی دو چار بڑے ہوٹل اپنی مرضی سے مقامی لوگوں کا انتخاب کر سکے اور یوں مقامی لوگ ہر لحاظ سے محتاج ہو سکیں۔

منتخب مقامی حکومت کا نظام نہیں بلکہ ٹھیکدار کے ذریعے کچرا صاف کرنا۔  لہذا اس کے لیے ایک جامع ماحول دوست پبلک پالیسی کا ہونا اور اس پالیسی کو ریگولیٹ کرنے کامقامی infrastructure کی موجودگی اہم ہوتی ہے۔ سیاحت سے متعلق لوگ سیاحت کی بنیادی اور اہم مسائل پر کبھی بھی بات یا احتجاج نہیں کرتے ہیں لیکن میڈیا کے زیر اثر اس طرح کے غیر اہم انفرادی واقعات کو لے کر طوفان کھڑا کیا جاتا ہے  جو چند دنوں میں لوگ بھول جاتے ہیں اور پھر ان کو اگلا واقعہ جگاتا ہے۔

گلگت بلتستان خصوصا ہنزہ میں بڑے اور اجارہ دار ہوٹل دھیرے دھیرے سیاحت کی مارکیٹ اور فدرتی وسائل یعنی زمین، پانی اور سیاحت کے اہم مقامات پر انتظامیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ سے قابض ہو رہے ہیں اسی طرح حال ہی میں انتظامیہ نے homestay  پر ایک من گھڑت سیکورٹی کی کہانی بنا کر پابندی لگا دی ہے۔ جس کا مقصد مقامی لوگوں کو سیاحت کی مارکیٹ سے ہمیشہ کے لئے نکال باہر کرنا ہے اور اس پر بڑے ہوٹلوں کو قبضہ دینا ہے تاکہ یہی دو چار بڑے ہوٹل اپنی مرضی سے مقامی لوگوں کا انتخاب کر سکے اور یوں مقامی لوگ ہر لحاظ سے محتاج ہو سکیں۔

پھر لینڈ ریفارمز کے ذریعے ریاست پہاڑ، گلیشرز، جنگلات، ندیاں اور دریاؤں پر قبضہ کر کے ان فطری وسائل کو مارکیٹ میں لا کربڑے سرمایہ داروں کو investment  کے نام پر حوالہ کرکے مقامی لوگوں کو ان کے تاریخی حقوق سے محروم کرنا چاہتی ہے۔

 سیاحت میں موجود مقامی لوگوں کواس مارکیٹ میں ان بڑے سرمائے کے اژدھوں کے سامنے زندہ رہ کر کامیاب کاروبار کرنے کے لیے اپنی دور رس حکمت عملی بنانی ہوگی نہ کہ وقتی منافع کے لیے موقع پرستی کا شکار ہوں۔

 مقامی حکومتوں کے قیام اور ان کے ذریعے قدرتی وسائل اور مقامی آبادی کے حقوق کا تحفظ، سیاحت اور دیگر کاروباروں کا انتظام و انصرام کئے بغیر سیاحت پر کنٹرول وہ کاروباری کریں گے جو تھائی لینڈ یا سری لنکا جیسی سہولتیں سیاحوں کو دے سکیں۔

 سچ بات یہ ہے کہ سیاح کم خرچ پر زیادہ سے زیادہ جائز اور ناجائز عیاشی کرنا چاہتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے