Baam-e-Jahan

چترال کو اس کی بے غیرتی کی حدوں کو چھوتی شرافت لے ڈوب رہا ہے۔


تحریر: فخر عالم


گندم کی قیمتوں پر تحریک اٹھتی ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اور عوام سڑکوں پر آتے ہیں مگر چیف سیکرٹری سے ایک عدد زوم میٹنگ اور جشنِ شندور کے موقع پر وزیراعظم کو بُلا کر مطالبات ان کے سامنے رکھنے کے جھوٹے وعدے پر بہلا پھسلا کر قائدین کو گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ تحریک لپیٹ دی جاتی ہے۔

دوسری طرف شندور کے اُس پار گلگت بلتستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں گلوغ موڑی کے باسیوں کو جشنِ شندور کے لیے کھلاڑیوں کی سیلکشن پر اعتراض تھا، شندور جانے والی سڑک کے بیچ دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔

آپ کو یاد ہوگا کچھ سال پہلے ڈپٹی کمیشنر نے ناجانے کیا سوچ کر شہزادہ سکندرالملک کو چترال کی ٹیم کی سربراہی سے ہٹادیا تھا۔ فیصلہ ٹھیک تھا یا غلط مگر بات ایک شخص کی تھی۔ پولو ایسوسی ایشن سمیت تمام لوگوں کو اتنے زور سے غیرت آئی کہ جشنِ شندور کا بائیکاٹ کردیا۔ نتیجتاً انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ کیا کبھی ایک بہری ریاست سے علاقے کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کے لیے بھی ہمیں اتنی غیرت آئی ہے؟

یہ بات پوچھنا تو دور کبھی ہم نے سوچا بھی ہے کہ ایک مقامی میلے میں مقامی لوگ اور انتظامیہ مرکز میں ہونے کے بجائے حاشیے پر کیوں ہیں؟ کیا ہمارا، ہمارے کھلاڑیوں، ہمارے گھوڑوں اور ہماری ثقافت کا مصرف مفت میں فوجی اور سِول اشرافیہ کی تفریح کا سامان بننا ہے؟ تین روزہ جشن میں افسر شاہی کی تفریح پر 13 کروڑ کا بجٹ کیوں خرچ ہوتا ہے؟ اگر ہوتا ہے تو کیوں اس میں سے دس فیصد بھی مقامی لوگوں، تماشائیوں اور کھلاڑیوں کو سہولیات دینے پر خرچ نہیں ہوتا؟

ایک مقامی نوجوان اپنے موبائل فون سے لائیو سٹریمنگ کے ذریعے پندرہ بیس ہزار لوگوں کو براہِ راست میچ دیکھاتا رہا۔ کروڑوں کا بجٹ اڑانے والوں کو اتنی توفیق بھی نہیں ہوتی۔ کیا یہ واضح نہیں کرتا کہ ہمارے تمام تر وسائل صرف اور صرف اسٹیج پر براجمان افسروں کی تفریح پر صرف ہوتے ہیں۔ عوام کی تفریح سرکار کا منشا ہی نہیں۔

اور سب سے بڑا سوال یہ کہ جن کا کام محض چوکیداری کا ہے وہ اسٹیج پر مع اہل و عیال کے کیا کر رہے ہیں؟ عوام کو خاردار تاروں کے پیچھے کیوں خوار کررہے ہیں؟

آج چترال کے جیتنے پر دل خوش تو ہے مگر ساتھ یہ نوکدار سوالات دل میں چھب بھی رہے ہیں۔ کیوں نہ اس بار جیت کی حلاوت بھرے جام میں ان سوالات کے کچھ تلخ گھونٹ بھی شامل کرکے پیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے