Baam-e-Jahan

سرمایہ کاری کے نام پر گلگت بلتستان پر قبضے کی مہم جاری

صفی اللہ بیگ

گلگت بلتستان کی جغرافیائی اور مادی حالات میں تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ  ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمیر اور دیگر تنازعات میں جنگ اور جنگی تیاری کے لیے اس خطے کا برطانوی نو آبادیاتی دور سے بے دریغ استعمال خصوصا 1970 کے بعد سے اس پورے علاقے اور  اس کی گلیشرز کے ذخائز  کی بڑے پیمانے پر militarization  اور دونوں طرف کے فوجوں کی بڑی تعداد میں موجودگی اور ان کی عمومی و جنگی  ضروریات کے لیے مسلسل زمینی اور فضای ٹرانسپورٹ کا استعمال ہے۔

تحریر: صفی اللہ بیگ


پاکستان کے تفریحی مقامات مری، ناران، کاغان اور سوات کی قدرتی وسائل، مناظر اور معاشی اہمیت کی غیر ضروری اور ماحول دشمن تعمیرات، فطری نظام اور حیاتیاتی تنوع پر بےجا دباؤ اور وسائل کی بے دردی سے استعمال سے انسانی زندگی، ماحولیات اور معشیت کے لیے اہم علاقے کئی سالوں سے ماحولیاتی بحرانوں کی زد میں ہیں۔

 جغرافیائی اعتبار سے یہ علاقے ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کو میدانی علاقوں سے جوڑتے ہیں اور یوں فطرت کے ماحولیاتی، موسمیاتی اور وسائل کی ترسیل کے سائکل کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ صدیوں سے تسلسل کے ساتھ جاری اس فطری نظام میں بڑھتی ہوی خلل اور اس کے نتیجے میں آنے والی تباہیوں میں بھی ہر سال اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ جس کی سب سے اہم وجہ زمین کی درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ہے۔

 ماحولیاتی تبدلی ان تفریحی مقامات سے زیادہ اونچا متنازعہ گلگت بلتستان کا 73 ہزار مربع کلو میٹر کے بلند ترین پہاڑی اور گلیشرز سے ڈھکے  ہوئے  برصغیر کے سب سے زیادہ ماحولیات کے اعتبار سے حساس علاقے کو بے حد متاثر کر رہا ہے جو پاکستان کے تفریحی مقامات کی وجود اور پاکستان کی میدانی علاقوں کی زراعت کو برقرار رکھنے اور انسانی زندگی کے لیے موافق موسم کو یقینی بنانے کے لیے سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ 

اگرچہ متنازعہ گلگت بلتستان گزشتہ 74 سالوں سے پاکستان کی انتظامی کنڑول میں ہے جسے پاکستان کے آئین میں تحفظ بھی حاصل نہیں ہے تاہم اس وسیع اور اہم ماحولیاتی خطے کے جغرافیائی اور مادی خدوخال میں جو تبدیلیاں گزشتہ تین دہائیوں میں دیکھنے میں آئی ہیں ان سے اس خطے کے سب سے نمایاں مادی مظاہر یعنی پہاڑ، گلیشرز، ندیاں، دریا، اونچے اور کھلے میدان اور جنگل سب سے زیادہ متاثر ہوتی نظر آتی ہیں۔

 یاد رہے کہ گلگت بلتستان کے یہ فطری مناظر اور مظاہر برصغیر میں زمین پر پڑنے والی سورج کی توانائی کے توازن کو برقرار رکھنے میں سب سے زیادہ کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اس کے علاوہ گلگت بلتستان کا اوسطا 5000 اور 7000 فٹ سطح سمندر سے اونچا اور برف پوش پہاڑوں میں گھرا ہوا علاقہ برصغیر میں مون سون بارشوں  اور دریاؤں کا وجود رکھنے اور پانی فراہم کرنے، موسمی حالات کی تبدیلی اور درجہ حرارت خصوصا گرمی کی شدت کو کم کرنے میں  نمایاں مقام کے حامل ہے۔

گلگت بلتستان کی جغرافیائی اور مادی حالات میں تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ  ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمیر اور دیگر تنازعات میں جنگ اور جنگی تیاری کے لیے اس خطے کا برطانوی نو آبادیاتی دور سے بے دریغ استعمال خصوصا 1970 کے بعد سے اس پورے علاقے اور  اس کی گلیشرز کے ذخائز  کی بڑے پیمانے پر militarization  اور دونوں طرف کے فوجوں کی بڑی تعداد میں موجودگی اور ان کی عمومی و جنگی  ضروریات کے لیے مسلسل زمینی اور فضای ٹرانسپورٹ کا استعمال ہے۔ جس کے لیے ریاست پاکستان نے گلگت بلتستان خصوصا بلتستان استور اور دیگر سرحدی علاقوں کے زمینوں پر دفاع اور نیشنل پارک کے نام پر قبضہ، مقامی لوگوں کی مکمل بے دخلی اور ماحول سے موافقت نہ رکھنے والی تعمیراتی سرگرمیاں اور مسلسل انسانی مداخلت کی جا رہی ہے۔

نوے  اور دو ہزار  کے دہائیوں تک NGOs نے مغربی ممالک کے مالی امداد کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ گلگت بلتسستان جیسے پہاڑی اور دور افتاده خطے کو مارکیٹ کے ذریعے عالمی سرمایہ داری نظام سے جوڑا جاسکتا ہے۔ لہذا گلگت بلتستان میں متعارف کرانے والی مارکیٹ کو غربت کا خاتمہ اور ترقی کا ذریعہ بنا کر پیش کیا گیا اور روایتی طرز زندگی، روایتی  پیداواری اثاثوں کو غیرمنافع بخش ظاہر کر کے اور حکومت اور اس کے اداروں کونا اہل اور کرپٹ بتا کرصرف مسلسل سرمایہ کاری کو دولت اور ترقی کے حصول کے  ذریعے کے طور پر پیش کیا گیا۔ تسلسل کے ساتھ اس ذہن سازی کے ذریعے انفرادیت، انفرادی مفاد اور انسانوں کے درمیان روایتی تعاون کی مضبوط رسم کو ختم کرکے غیر انسانی مقابلہ کو ترقی کے لیے اہم رویہ قرار دیا گیا۔

پاکستان کے انتظامی کنٹرول میں ریاست کی عمل داری کو مضبوط بنانے، عسکری اہمیت اور قوت کو ہندوستان کے مقابلے میں برقرار رکھنے اور مغربی سرمایہ داری کے دور رس اور طویل المیعاد سیاسی و معاشی مقاصد کے حصول کے لیے ریاست پاکستان نے 1980 کی دہائی میں بڑے پیمانے پر گلگت بلتستان میں مغربی ممالک کے مالی امداد اور نظریاتی ہم اہنگی رکھنے والی NGOs کو مختلف شعبوں بالخصوص تعلیم، صحت، زراعت، تقافتی ورثہ اور سیاحت میں کام کرنے کے لیے اجازت دے دی۔ یوں ان NGOs نے چند دہائیوں میں ہزاروں اسکول اور بنیادی صحت کی عمارتیں بنانے کے لیے مقامی لوگوں سے مفت زمینیں حاصل کی، مقامی اور روایتی زراعت کا خاتمہ کرکے منڈی میں بکنے والی فصلوں اور پھلوں کو متعارف کرایا اور تاریخی ورثہ کو مفت میں حاصل کرکے ان کی تجارتی طرز پر سیاحت کے  لیے  تجدید کیا۔

 اس طرح ان مغربی اور مشرق وسطی کے ممالک کے امداد سے چلنے والی NGOs نے ان تعلیمی صحت اور ورثة کے اثاثوں کو بنانے کے بعد ان کو اپنے نام پر منتقل کیا۔ جس کی مثال ہنزہ، غذر اور چترال کے سینکڑوں اسکولوں، صحت کے مراکز اور 400 سال پرانا شگر فورٹ، 250 سالہ خپلو فورٹ، 900 سال قدیم التت فورٹ اور 850 سالہ بلتت فورٹ نمایاں ہیں وہ  آج  آغاخان فاؤنڈیشن کی ملکیت میں ہیں۔

 اسی طرح بلتستان اور گلگت میں سینکڑوں اسکول اور صحت کے ادارے معارفی فانڈیشن کے ملکیت میں چل رہے ہیں۔

چنانچہ نوے  اور دو ہزار  کے دہائیوں تک NGOs نے مغربی ممالک کے مالی امداد کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ گلگت بلتسستان جیسے پہاڑی اور دور افتاده خطے کو مارکیٹ کے ذریعے عالمی سرمایہ داری نظام سے جوڑا جاسکتا ہے۔ لہذا گلگت بلتستان میں متعارف کرانے والی مارکیٹ کو غربت کا خاتمہ اور ترقی کا ذریعہ بنا کر پیش کیا گیا اور روایتی طرز زندگی، روایتی  پیداواری اثاثوں کو غیرمنافع بخش ظاہر کر کے اور حکومت اور اس کے اداروں کونا اہل اور کرپٹ بتا کرصرف مسلسل سرمایہ کاری کو دولت اور ترقی کے حصول کے  ذریعے کے طور پر پیش کیا گیا۔ تسلسل کے ساتھ اس ذہن سازی کے ذریعے انفرادیت، انفرادی مفاد اور انسانوں کے درمیان روایتی تعاون کی مضبوط رسم کو ختم کرکے غیر انسانی مقابلہ کو ترقی کے لیے اہم رویہ قرار دیا گیا۔

 اسی اثنا میں سیاحت کے فروغ پر بھی کام کیا گیا جس میں ان NGOs کا بڑا کردار رہا ہے۔ اور سیاحت کو ترقی اور غربت مٹانے کا اہم ذریعہ بنا کے پیش کیا گیا۔  انفرادی سرمایہ داروں اور کاروباری اداروں کو مسیحا کے طور پر عوام میں پیش کرتے رہے۔ اور ریاست اور انتظامیہ کی مدد سےسرمایہ کاری کے لیے راہیں کھولتے گئے۔ اور قليل عرصے میں Serena hotels نے گلگت میں ہوٹل کے علاوہ شگر، خپلو، التت کے قلعوں پر قبضہ کیا اور اس وقتGB  میں اس کے پاس سب سے زیادہ یعنی 200 سے زیادہ کمرے ہیں۔ اور اس کے دو ہوٹل کریم آباد اور سوست ہنزہ میں بن رہے ہیں۔

 اسی طرح ہاشوانی نے گلگت، اسکردو، ہنزہ میں سینکڑوں کنال زمین حاصل کیا ہے۔ جبکہ زوریز لاشاری کا عطا آباد ہنزہ اور شگر میں ہوٹلز ہیں۔ رزاق داؤد، طلحہ محمود اور دیوان بھی ہنزہ ہوٹل بنا رہے ہیں دوسری طرف کراچی کے سرمایہ کاروں نے پھنڈر غذر اور نلتر گلگت میں سرمایہ کاری کے لیے زمینیں خریدی ہیں۔

مصنف کے بارے میں:

صفی اللہ بیگ ایک سیاسی و سماجی کارکن اور ماحولیات و تقافت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ بام جہاں کے لئے ریگولر بنیادوں پر کالم لکھتے اور تجزے کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں