تحریر: فخر عالم
یہ عزتِ مآب کور کمانڈر پشاور جنرل حسن اظہر حیات صاحب جشنِ شندور کے مہمانِ خصوصی کے طور پر خطاب فرما رہے ہیں۔
سانحہ 9 مئی کی مذمت کے بعد جان کی امان پاکر عرض کرنا چاہوں گا کہ سکردو کے علی شیر خان آنچن کی وفات 1630 کی دہائی میں ہوئی تھی۔ چلیں! آپ کہتے ہیں تو مان لیتے ہیں کہ مرحوم آنچن صاحب وفات کے 300 سال بعد دوبارہ زندہ ہوکر شندور کا گراؤنڈ بنانے تشریف لائے تھے۔
نمبردار نیت قبول کاکاخیل کا تعلق چترال سے نہیں گلگت سے تھا۔ ابھی ابھی انہیں چترال کا ڈومیسائل دے دیتے ہیں۔
چترال کی مقامی زبان کھوار ہے۔ آپ نے خوار بولا ہے تو آج کے بعد خوار ہی سہی۔ مَس جنالی بھی آج کے بعد مَس جنالائی (بروزنِ لورالائی) برتا جائے گا۔
اور یہ جو آپ نے ابھی ابھی اس علاقے اور پولو سے اپنی دیرینہ شناسائی کے ثبوت کے طور پر پولو اسٹار مقبول احمد سمیت پولو کے سابق کھلاڑیوں کے نام لے کر فرمایا تھا کہ ہم انہیں بھولے نہیں ہیں اور ان کے فلاح کے لیے فنڈ قائم کریں گے، وہی مقبول احمد ٹھیک اُس وقت آپ کے فوجیوں کے لگائے باڑ کے پیچھے دھول بھری زمین پر بیٹھے کھیل دیکھ رہے تھے۔ اس بے توقیری کی تصویر وائرل ہوئی ہے۔ ناسمجھ لوگ بُرا مان رہے ہیں کہ شندور کے کروڑوں کا بجٹ جو اس سال آپ کے حصے میں آیا تھا اس میں سے سفید ریش مقبول احمد کے لیے ایک عدد کرسی کا انتظام بھی نہ ہوسکا۔
اس تقریر میں آپ نے چترال میں معدنیات کی مائیننگ وغیرہ میں "ہاتھ بٹانے” کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔ بندہ اتنا قابل ہو، کام سے کام رکھنے والا ہو اور نیت بھی صاف ہو تو برکت اور کامیابی مل ہی جاتی ہے۔
اس کاؤش کے لیے ڈھیر ساری دعائیں اور نیک تمنائیں۔ اللہ برکت دے!
سانحہ 9 مئی کی مکرر مذمت۔