خوبصورتی کے اعتبار سے گلگت بلتستان بالعموم اور ہنزہ کو بالخصوص سوئٹزر لینڈ کہا جاتا ہے تو خوشی سے جی بی کے عوام اور خاص کر ہنزہ کی ننانوے فی صد تعلیم یافتہ غیور عوام خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں۔ مگر اس بات کا اندازہ ہمیں نہیں کہ یہ سرمایہ دار اور حکومت کی طرف سے عوام کو مشغول رکھنے کے لئے ایک اہم کھیل ہے۔ اس کا اندازہ آپ نہ صرف ہوٹلوں کی تعمیر کے اس تباہی کا تماشہ دیکھنے والے عوام سے لگا سکتے ہیں
تحریر: عقیلہ بانو
جہاں ہم درخت لگانا چاہتے تھے سرمایہ داروں نے وہاں سینکڑوں سیمنٹ کے ستون نصب کرکے ہنزہ کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیا۔ ہنزہ کے عوام سرمایہ داروں کے ہاتھوں تیرے بے بسی کو سلام۔
میں ہنزہ کے تمام با شعور خواتین و حضرات سے اپیل کرتی ہوں۔ کہ آئیے دلائل کے ساتھ اپنے حقوق کی لڑائی حقیقی معنوں میں لڑیں۔ ہم صرف شوشل میڈیا پہ کیوں تباہی کا رونا رو رہے ہیں۔ ایک یا دو بندے جتنا بھی شور مچائیں، جو مرضی بولیں اس سے کچھ نہیں ہونا ہے نہ ہی اس تباہی کو وہ اکیلے روک سکتے ہیں۔ کیونکہ ہر روز بڑے بزنس مین ایک نئی عمارت کی تعمیر کی بنیاد رکھتے ہیں اور ہر روز انہی بڑی بڑی عمارتوں کی افتتاح ہنزہ کے ہی عمائدین سے کراتے ہیں جو کہ بڑے سرمایہ دار کے ہاتھوں ایک کیک کے ٹکڑے اور ایک بسکٹ میں بک چکے ہیں۔
نہ صرف ہوٹلوں کی بات ہے بلکہ آپ تمام سمجھدار اور با شعور لوگوں کی توجہ ایک ایسی تباہی پھیلانے والے پراجیکٹ کی طرف مبذول کرانا چاہتی ہوں۔ اس کے بعد آپ خود فیصلہ کریں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
خوبصورتی کے اعتبار سے گلگت بلتستان بالعموم اور ہنزہ کو بالخصوص سوئٹزر لینڈ کہا جاتا ہے تو خوشی سے جی بی کے عوام اور خاص کر ہنزہ کی ننانوے فی صد تعلیم یافتہ غیور عوام خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں۔ مگر اس بات کا اندازہ ہمیں نہیں کہ یہ سرمایہ دار اور حکومت کی طرف سے عوام کو مشغول رکھنے کے لئے ایک اہم کھیل ہے۔ اس کا اندازہ آپ نہ صرف ہوٹلوں کی تعمیر کے اس تباہی کا تماشہ دیکھنے والے عوام سے لگا سکتے ہیں بلکہ ہنزہ کے اس پرائم اور خوبصورت پوائنٹ التت دوئکر کی تباہی سے لگا لیں۔ جہاں ہنزہ کو روشنیوں کا شہر بنانے کا جھانسہ دے کر اس پروجیکٹ پہ کام ہو رہا ہے۔
کچھ ہی سال پہلے اسی اجتماعی زمین جو کہ ایک کمیونٹی کی ملکیت تھی ہم شقم کی طرف سے درخت لگانے کے لیے گئے تو اجازت نہیں دی گئی۔ مگر آج اسی زمین پہ سرمایہ دار بجلی پیدا کرنے کے لیے ہزاروں سیمنٹ کے ستون بنا رہے ہیں اور ان کے اوپر سینکڑوں بڑے بڑے سولر پینلز لگا رہے ہیں۔ جس سے نہ صرف قدرتی حسن کی تباہی ہو گی بلکہ ماحولیات پہ اس کا جو اثر پڑے گا اس کا ابھی کسی کو اندازہ ہی نہیں ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس سے بھی ایک اہم اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ بجلی غریب عوام کی پہنچ سے میلوں دور ہے کیونکہ اس کو خریدنا کسی غریب کی بس کی بات نہیں اس لیے یہ باہر کے بڑے سرمایہ دار ہنزہ کے کچھ گنے چونے سرمایہ داروں کو یہ بجلی دینے کا اہم منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔
دنیا میں اس عوام سے زیادہ بے حسِ اور بے وقوف اور کونسی قوم ہوگی۔ جس کے پاس پانی کے اتنے بڑے ذخائر ہونے کے باؤجود بجلی سے محروم ہے اور باہر سے لوگ آ کے زمین پر قابض ہونے کے لیے ان کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ اس کی بڑی مثال این پی اے کے انرجی پروجیکٹ ہے جو کہ سولر سے ایک میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے دعوے دار ہے۔ مجھے اس بات سے بھی تکلیف ہے کیونکہ کچھ ہی سال پہلے اسی اجتماعی زمین جو کہ ایک کمیونٹی کی ملکیت تھی ہم شقم کی طرف سے درخت لگانے کے لیے گئے تو اجازت نہیں دی گئی۔ مگر آج اسی زمین پہ سرمایہ دار بجلی پیدا کرنے کے لیے ہزاروں سیمنٹ کے ستون بنا رہے ہیں اور ان کے اوپر سینکڑوں بڑے بڑے سولر پینلز لگا رہے ہیں۔ جس سے نہ صرف قدرتی حسن کی تباہی ہو گی بلکہ ماحولیات پہ اس کا جو اثر پڑے گا اس کا ابھی کسی کو اندازہ ہی نہیں ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس سے بھی ایک اہم اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ بجلی غریب عوام کی پہنچ سے میلوں دور ہے کیونکہ اس کو خریدنا کسی غریب کی بس کی بات نہیں اس لیے یہ باہر کے بڑے سرمایہ دار ہنزہ کے کچھ گنے چونے سرمایہ داروں کو یہ بجلی دینے کا اہم منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔
ہنزہ کے باشعور خواتین و حضرات سے گزارش ہے کہ آپ اپنے انفرادی سوچ سے باہر نکل کر اور اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک اجتماعی سوچ کو لے کر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ایک ہو کر حقیقی ہنزہ کے تعمیر وہ ترقی کے لیے کام کرے اور ہنزہ کو اس تباہی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں کہ ہم اپنے نام اور پہچان کی بھیک انہی سرمایہ داروں سے مانگنے پہ مجبور ہوں گے۔