Baam-e-Jahan

سیلاب سے تباہ حال کوغوزی! ارباب اختیار سے مدد کے منتظر

سیلاب سے تباہی

تقریباً آدھا کلومیٹر تک ایک طرف اور اس سے بھی کم دوسری طرف حفاظتی پشتے تعمیر کرنے سے تقریباً پانچ سو گھرانے ہمیشہ کے لئے محفوظ رہ سکتے ہیں۔۔اور راتوں کو بوڑھے، بیمار، خواتین اور بچے ادھر ادھر بھاگنے کے بجائے سکون کی نیند سو سکتے ہیں۔۔ اگر ایسا نہ ہوا تو سکون کی نیند تو نہیں البتہ (خدا نہ کرے) ہمیشہ کی نیند سوئیں گے۔۔

تحریر: ولی زمان مسرور


جنت نظیر گاؤں کوغوزی اس وقت اربابِ اختیار سے مدد کی بھیک مانگ رہا ہے۔ لہلہاتی فصلوں، گنگناتی آبشاروں، شور مچاتے دریاؤں، بلندوبالا چناروں اور مرغزاروں کی بستی کوغوزی کی آواز اگر سننے کی قابل ہوتی تو یقینا "مجھے بچاؤ مجھے بچاؤ” کی صدائیں ارباب اختیار کے کانوں میں گونج اٹھتی۔۔ مگر بے حس کان ایسی لطیف آوازیں کہاں سن سکتے ہیں۔۔ ان کو تو وہ آوازیں سنائی دیتی ہیں جس میں کرپشن، رشوت، کمیشن، سود وغیرہ کے الفاظ کی آمیزش ہو اور جس میں نسل در نسل کے مستقبل کی ضمانت موجو ہو۔۔

گزشتہ ایک دہائی سے کوغوزی نالے کے پانی کا مزاج بہت برہم ہے۔۔جون، جولائی اور اگست کے مہینوں میں اس کی مستی خرمستیوں میں تبدیل ہو جاتی ہے، اور جنوں کا پارہ نقطہ انتہا کو پار کر جاتا ہے۔۔ آسمان میں بادل کا ایک ٹکڑا  کیا نظر آتا ہے کہ اہل علاقہ کی نظریں فرار کی راہوں پر ہوتی ہیں۔۔ ایک گرج چمک کیا ہو تی ہے کہ صاف اور شفاف پانی سیلابی ریلے کی صورت اختیار کر جاتا ہے اور اپنے دامن میں پہاڑ جیسے پتھر اٹھا اٹھا کر بستی کی طرف آنے لگتا ہے۔۔ اور منٹوں یا گھنٹوں کی بات نہیں ہوتی بلکہ اس کا یہ غضب ناک اور خطرناک انداز ہفتوں جاری رہتا ہے۔ ان دنوں اہل علاقہ اپنے گھروں کو چھوڑ جاتے ہیں اور اونچے پہاڑوں کے دامنوں یا دور رشتہ داروں کے ہاں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔۔

حالیہ تین چار دنوں سے بھی یہی سلسلہ جاری ہے۔۔اگر ارباب اختیار تھوڑی سی بھی توجہ دیں۔تو علاقہ ممکنہ نہیں بلکہ یقینی تباہی سے بچ سکتا ہے۔۔

کسی زمانے کا بنا ہوا ایک منحوس پل یہاں موجود ہے جو کہ سیلابی ریلے کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔۔ جس میں بڑے بڑے پتھر پھنس جاتے ہیں اور ریلے کا رخ  دیہات کی طرف مڑ جاتا ہے۔۔

نالے میں بہت زیادہ پتھر جمع ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے نالے کی سطح اونچی ہو گئی ہے اور پانی اپنا راستہ چھوڑ کر اطراف میں داخل ہوتا ہے۔۔

لہذا اولین فرصت میں اس پل کو ہٹانے کی ضرورت ہے۔۔ ایکسکیویٹر کے ذریعے نالے کی سطح سے پتھر اور ملبہ وغیرہ ہٹانے سے سیلابی ریلہ اپنی راہ لے سکتا ہے اور علاقہ اس کے نقصانات سے بچ سکتا ہے۔۔

تقریباً آدھا کلومیٹر تک ایک طرف اور اس سے بھی کم دوسری طرف حفاظتی پشتے تعمیر کرنے سے تقریباً پانچ سو گھرانے ہمیشہ کے لئے محفوظ رہ سکتے ہیں۔۔اور راتوں کو بوڑھے، بیمار، خواتین اور بچے ادھر ادھر بھاگنے کے بجائے سکون کی نیند سو سکتے ہیں۔۔ اگر ایسا نہ ہوا تو سکون کی نیند تو نہیں البتہ (خدا نہ کرے) ہمیشہ کی نیند سوئیں گے۔۔

مگر ارباب اختیار کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگیں گی۔۔ ہمارے بڑے ہمارے لیڈر کچھ کرنے کے قائل ہی نہیں وہ صرف کہنے کے قائل ہیں۔۔ وہ کردار کے نہیں گفتار کے غازی ہیں۔۔ وہ عوام کو ریلیف دینے کے نہیں بیوقوف بنانے کے ماہر ہیں۔۔ ان کو معلوم ہے کہ ان علاقوں سے بڑے لوگ کب سے نکل کر محفوظ مقامات پر پہنچ گئے ہیں۔۔ باقی غریب لوگ ویسے بھی ان کی انگلیوں پر ناچنے والے ہیں۔۔ سو ان کو نچاتے رہیں گے، کچھ کر کے نہیں کچھ بول کے۔۔

اس وقت کا سیلاب ندی کی دونوں اطراف کےدیہاتوں میں داخل ہو چکا۔۔ اپنا راستہ بنا چکا۔۔  غریبوں کی تین گاڑیاں، پانچ دوکانیں، چار موٹر سائیکلیں اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔۔ کھیتوں میں داخل ہو کر فصلوں کو برباد کر گیا، گھروں کے اندر داخل ہوا، میوہ دار اور سایہ دار درختیں بہہ گئے۔۔نہروں کے سراغ تک کو مٹا گیا۔۔ پائپ لائنوں کو ملیامیٹ کردیا۔۔ اور اپنی راہ کو مزید ہموار کر کے واضح اشارہ دیا کہ اگلی بار وار بہت خطرناک ہو گی۔۔ نہ گھر بچے گا، نہ کھیت بچیں گے، نہ سڑکیں، نہ باغات ۔۔ بلکہ یہ ہنستا بستا علاقہ ایک ویرانے کا منظر پیش کرے گا۔۔(خدا نہ کرے۔۔ خاکم بدہن۔۔)

مگر ایسے وقت میں ایک ایم پی اے اور ایم این اے سے لے کر ایک وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم تک تشریف لائیں گے۔۔ بہت افسوس کا اظہار کریں گے۔۔ دکھ کی اس گھڑی میں ہمارے ساتھ ہوں گے۔۔ مرنے والوں کے لئے پانچ لاکھ روپے کا بھی اعلان کریں گے۔۔ آٹا، گھی، چاول وغیرہ تقسیم کریں گے، وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ اپنے پائنچے اٹھا کر رضاکاروں کے ساتھ کام کرکے احساس ہمدردی کا اظہار کریں گے۔۔ اور بہت کچھ ہوگا۔۔ مگر کیا فائدہ۔۔

لہذا ہم آپ کی راہیں تک رہے ہیں اگر ہو سکے تو ابھی وقت ہے ہمارا خیال رکھنا۔۔ ہم آپ کو دعائیں دیں گے۔۔ ہماری جانیں، ہمارے مال ہمارا سب کچھ اس وقت خطرے میں ہیں۔۔ ہماری مدد آپ پر فرض ہے۔۔ ہم بھی اس ملک کے شہری ہیں آپ سب کی طرح ۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں