رپورٹ: فرمان علی اور کریم اللہ
یہ ویڈیو ز 22 جولائی اور 23 جولائی کے دوران 36 گھنٹے بونی سے اسلام آباد سفر کے دوران کوغوزی اور لوئر چترال کے دیگر علاقوں میں سیلاب اور بارش سے ہونے والے تباہی کے چشم دید مناظر ہیں۔ جو ریاستی اداروں کی مجرمانہ غفلت، بدعنوانی اور عوام دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں درجہ حرارت میں اضافہ اور اس کی وجہ سے گلیشرز کے پگھلاؤ اور جھیلوں کے پھٹنے نیز مون سون کی بارشوں سے سیلاب نے چترال اور گلگت بلتستان جیسے پہاڑی اور خطرات سے دوچار خطوں میں گزشتہ چند دنوں میں تباہی پھیلائی ہے۔ ندی نالوں میں سیلاب نے میرا گرام، یارخون، مستوج، کوغوزی، اور دیگر دیہاتوں میں گھروں، پن چکیوں، پلوں، باغات، اور کئی گاڑیوں کو بہا کر دریا برد کئے۔ جس کی وجہ سے اپر چترال کا رابطہ دنیا سے کٹ گیا ہے۔
ہزاروں لوگ جن میں خواتین، بچے، عمر رسیدہ اور بیمار شامل ہیں کئی جگہوں پہ پھنسے ہوئے ہیں۔ مقامی انتظامیہ، میونسپل اہلکار کا کہیں اتہ پتہ نہیں۔ این ایچ کی مشینیں کام کرتے دکھائی دیئے جو ناکافی ہیں۔ کہیں کہیں الخدمت کے رضاکار مسافروں کی مدد اور انہیں پانی اور شربت پلاتے نظر آئے۔
کئی لوگوں، خواتین، ملازم پیشہ افراد اور طلباء وطالبات اپنے اپنے اداروں اور کالجوں میں پہنچنے کے لئے اپنی زندگیوں کو خطرات میں ڈال کر سیلابی پانی کو کراس کرکے اور ہزاروں میٹر بلند خطرناک پھسلن والے پہاڑوں میں پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے چترال تک پہنچ رہے ہیں۔
بام جہاں نے یونین کونسل دروس کے چیرمین عبدالرحیم گجر اور مسافروں سے اس سلسلے میں پوچھا تو انہوں نے مقامی انتظامیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ ڈی سی اور اے سی کے صوابدید پہ اچھی خاصی فنڈ ہوتی ہے اور ٹی ایم اے کے پاس مشینری ہوتی ہے لیکن وہ اسے عوام کے مفاد عامہ اور فکاح و بہبود اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے پر خرچ کرنے کی بجائے اپنے عیاشیوں پر خرچ کرتے ہیں۔
عبدالرحیم گجر کا کہنا تھا کہ حکومت اشرافیہ کی تفریح اور عیاشی پر 24 کروڑ روپے شندور پولو فیسٹیول پر خرچ کرسکتی ہے لیکن عوام کے بنیادی ضروریات تعلیم، صحت اور سڑکوں کی تعمیر اور مرمت کے لئے فنڈ نہیں دیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو کوئی فنڈ نہیں دیا جارہا ہے۔ بیوروکریسی، محکمہ تعمیرات کے افسران اور ٹھیکیدار ترقیاتی فنڈ کی بندر بابٹ کرتے ہیں اور اپنے عیاشیوں پر خرچ کرتے ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر بخشل تھلیو نے کہا کہ اس قسم کے آفات سے عام عوام متاثر ہوتے ہیں، امیروں اور حکمرانوں پر اثر نہیں ہوپڑتا وہ عوام کے نام پر دنیا بھر سے قرض لیتے ہیں اور اپنی عیاشیوں پر خرچ کرتے ہیں۔ اس لئے چترال، گلگت بلتستان سے لے کر سندھ تک محنت کش عوام اور مظلوم اقوام کو متحد ہو کر ان حکمران طبقوں اور بیوروکریسی سے نجات حاصل کرنا ہوگا۔
استاد، مصنف اور عوامی ورکرز پارٹی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عاصم سجاد اختر نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر چترال اور گلگت بلتستان جیسے خطے ہوتے ہیں جن کا موسمیاتی تبدیلی اور درجہ حرارت میں اضافے میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے حکمران دنیا بھر سے موسمیاتی تبدیلی اور سیلاب سے تباہی کے نام پر فنڈز لیتے ہیں لیکن اسے ان دور دراز علاقوں پر خرچ کرنے کی بجائے اپنے عیاشیوں اور بڑے بڑے زمین داروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے جیبوں میں ڈالا جاتا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ عوام متحد ہو کر حکمران طبقوں اور ان کے سرپرستوں، اسبلشمینٹ کو اقتدار اور معیشت سے بے دخل کریں اور ترقیا یافتہ ممالک جو موسمیاتی تبدیلیوں کے ذمہ دار ہیں ان سے اس قسم کے افتوں سے پہنچنے والے نقصانات کے ازالہ کا مطالبہ کریں۔