Baam-e-Jahan

بجلی کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری اور اس کے تباہ کن اثرات

رحیم خان

تحریر: رحیم خان


حال ہی میں گلگت بلتستان کے سیکٹری برقیات کا ایک بیان سامنے آیا  ہے جس میں جناب بتا رہے ہیں کہ گلگت بلتستان كو نیشنل گرِڈ میں شامل کیا جا رہا  اور ساتھ ہی موصوف بتا رہے ہیں کہ اس عمل سے پرائیویٹ انویسٹر اٹریک ہوگا اب  گلگت بلتستان اسمبلی اور تمام سیاسی قیادت كو  واضح طور پر سمجھنا چاہیے اور گلگت بلتستان کے تمام لوگوں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جی بی میں پن بجلی کی پیداوار میں دلچسپی رکھنے والے کسی بھی سرمایہ کار کو مقامی کمیونٹیز یا مقامی حکومتوں کی شراکت کے بغیر ایسا کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔

بجلی سمیت زندگی کے تمام سہولیات كو فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اس لئے ہمیں حکومت کے منصوبوں کو بنیادی طور پر اہم سمجھنا چاہئے اور انہیں سب سے آگے ہونا چاہئے۔ نجی سرمایہ کار ہمیشہ اپنے منافع کو پہلے رکھتے ہیں نہ کہ غریب عوام کی فلاح کو۔ ان کی سرمایہ کاری کا پہلا اور حتمی مقصد شرح منافق کمانا ہوتا ہے۔

چونکہ  گلگت بلتستان کی مقامی آبادی قلیل ہے اور ہمارے پاس صنعتی کاروبار نہیں ہیں، اور نہ ہی کوئی مستند ذرائع آمدنی کا نظام  موجود ہے۔  اس لیے لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہماری ممکنہ پن بجلی کے قدرتی سائٹس کو کسی بھی نجی سرمایہ کار کے حوالے کرنے میں جلد بازی کرنا تباہ کن ہوگا اور یہ گلگت بلتستان  کو بہت کم قیمت  میں باہر کے لوگوں کو بیچنے کے مترادف ہے جو بدقسمتی سے پہلے ہی ہونا شروع ہو چکا ہے۔

 ہمیں ایک ایسے متوقع وقت کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے جب آہستہ آہستہ اور خاموشی سے، تھوڑا تھوڑا، جزوی طور پر، اور پھر کلی طور پر پورے جی بی کو آزاد منڈی کے کاروبار اور سرمایہ کاروں کے قبضے میں دے دیا جائے گا۔ ایسا دنیا کے بہت سے حصوں  میں پہلے ہی ہوچکا ہے جہاں ترقی کے نام پر  مقامی آبادی کو مکمل طور پر پسماندہ کر دیا گیا ہے۔ مقامی کمیونٹیز تمام وسائل اور ان سے ملنے والے مفادات کے اصلی اور واحد مالکان ہیں، ان کی مالکانہ حیثیت کو تسلیم کیا جانا لازمی ہے۔ اس ضمن میں مقامی حکومتوں کی ضرورت اب پہلے سے بہت زیادہ اہم ہو چکی ہے۔

مصنف کے بارے میں

رحیم خان کا تعلق گکگت بلتستان کے ضلع ہنزہ سے ہے اور وہ ایک بایاں بازو۔ کی پارٹی عوامی ورکرز پارٹی گکگت بلتستان کے رکن ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں