Baam-e-Jahan

زندگی تماشا کے ساتھ ایک ذاتی سا تعلق بھی ہے۔


فلم کے عنوان ’زندگی تماشا‘ کو بہت خوبصورتی سے نبھایا گیا ہے اور کہانی میں بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ زندگی کیسا عجیب تماشا ہے۔ وہ گانا جو شروع میں ایک بازاری سا گیت معلوم ہوتا ہے فلم کے آخر تک اپنی زندگی پر تبصرہ معلوم ہونے لگتا ہے۔

تحریر: سفیر اللہ خان


قصہ کچھ یوں ہے کہ جب زندگی تماشا کی پروموشن ہو رہی تھی تو سرمد کھوسٹ کی ٹیم نے ہم سے بھی رابطہ کیا تھا اور بنی گالا (اسلام آباد) میں تھیٹر والے کے دفتر میں بھی ایک تقریب رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ہم نے فوری طور پر اس پر رضامندی ظاہر کر دی اور اپنے حلقے کے لوگوں کو اطلاع کر دی کہ آ جائیں۔ ہمارے ہاں ہونے والی تقریب ہی دراصل پروموشن کے حوالے سے ہونے والی تقریبات میں آخری تقریب ثابت ہوئی کہ اسی دن کچھ مخصوص لابی کے مولویوں نے اس فلم کے خلاف احتجاج شروع کر دیا تھا۔

 مجھے ذاتی طور پر فلم کا ٹریلر دیکھ کر ہی بہت شوق پیدا ہو گیا تھا فلم دیکھنے کا اور بہت مایوسی ہوئی کہ ہر طرح کی کوششوں کے باوجود اس فلم کو نمائش کی اجازت نہیں ملی (کیسی کیسی گھٹیا فلموں کو اجازت مل جاتی ہے اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں)۔

خیر اب یہ سن کر اچھا لگا کہ سرمد کھوسٹ نے اسے یوٹیوب پر ریلیز کر دیا ہے۔ اگرچہ اس سے فلم پر اٹھنے والی لاگت بھی وصول نہیں ہو سکے گی کجا یہ کہ فلم منافع کمائے۔

فلم میں مجھے تو کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں لگی۔ حقیقت کے اتنے قریب اور اتنے لطیف (subtle)انداز میں ساری کہانی پیش کی گئی ہے کہ کیا کہنے۔

https://www.youtube.com/watch?v=xUkJEnHCaos

فلم کے عنوان ’زندگی تماشا‘ کو بہت خوبصورتی سے نبھایا گیا ہے اور کہانی میں بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ زندگی کیسا عجیب تماشا ہے۔ وہ گانا جو شروع میں ایک بازاری سا گیت معلوم ہوتا ہے فلم کے آخر تک اپنی زندگی پر تبصرہ معلوم ہونے لگتا ہے۔ (اگر فلم دیکھی ہے تو بتائیں آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے)۔

اس فلم میں ٹرانسجینڈر کے مسائل کو ہلکا سا چھوا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ اس فلم کے بعد فطری طور پر ان کی اگلی فلم جوائے لینڈ  ہی ہو سکتی تھی۔  فلم ایک روایتی ہیرو ہیروئن والی کہانی نہیں ہے۔ فلم کا مرکزی کردار ایک نرم مزاج ، دوسروں کا (خاص طور پر کمزوروں کا) بہت خیال رکھنے والا فرد ہے۔ وہ ٹرانسجینڈر کے  برے حالات کو سمجھتا ہے اور ان کے ساتھ سختی کرنے سے گریز کرتا ہے، وہ معذور بیوی کے بال کنگھی کرتا ہے اور ایک منظر میں وہ بیوی کے کپڑے دھو کر تار پر لٹکا رہا ہے ان کپڑوں میں اس کی برا  (bra) بھی شامل ہے۔ 

میرے نزدیک فلم کا بنیادی خیال یہ ہے کہ اچھے اچھوں سے زندگی میں غلطیاں ہو جاتی ہیں، کسی چھوٹی سی غلطی کی بنیاد پر کسی کی ساری اچھائیوں کو نظر انداز کر دینا اور چھوٹی سی غلطی کو لے کر بیٹھ جانا کوئی معقول بات نہیں ہے۔

میرے نزدیک فلم کا بنیادی خیال یہ ہے کہ اچھے اچھوں سے زندگی میں غلطیاں ہو جاتی ہیں، کسی چھوٹی سی غلطی کی بنیاد پر کسی کی ساری اچھائیوں کو نظر انداز کر دینا اور چھوٹی سی غلطی کو لے کر بیٹھ جانا کوئی معقول بات نہیں ہے۔

اس فلم کے ہیرو سے دو بار غلطی ہوجاتی ہے۔ ایک بار وہ دوستوں کے اصرار پر ایک دوست کے بیٹے کی شادی میں ڈانس کرتا ہے اور دوسری بار وہ تھکاوٹ کا شکار ہوتا ہے ، پین کلر کھا کر فلم دیکھتے دیکھتے سو جاتا ہے۔ ایسے میں اسے اپنی بیمار بیوی کی آوازیں سنائی نہیں دیتیں اور پھر پتہ چلتا ہے کہ بیوی جان سے چلی گئی ہے۔

فلم معاشرے میں موجود بعض مولویوں کے منفی کردار کے گرد نہیں گھومتی۔ بس چند مناظر میں یہ معاملہ بھی سامنے آتا ہے جس میں کوئی جھوٹ نہیں بولا گیا۔ وہی دکھایا گیا ہے جو معاشرے میں ہوتا ہے اور جس سے خود مولوی بھی انکار نہیں کر سکتے۔

اس فلم میں بھی ایک ٹینشن مسلسل دیکھنے والے کو لاحق رہتی ہے جس کے وجہ سے آپ کی نسیں پوری فلم کے دوران میں کھنچی رہیں گی۔ جوائے لینڈ میں یہ عنصر اور بھی زیادہ ہے۔ میں نے جوائے لینڈ پر بھی یہ تبصرہ کیا تھا کہ اس میں کامک ریلیف (comic relief)نہیں دیا گیا۔ اس فلم میں بھی ایسا ہی ہے۔

یاد رہے کہ کامک ریلیف کوئی آج کی بات نہیں۔ تھیٹر کے دنیا میں صدیوں سے (جی ہاں صدیوں سے) کامک ریلیف کا تصور موجود ہے۔ ڈرامہ لکھنے والے یہ بات یقینی بناتے تھے کہ تماشائی مسلسل ٹینشن میں نہ رہیں۔ انہیں بیچ بیچ میں کہیں کوئی خوشگوار احساسات بھی ملیں ، ہنسنے کا موقع بھی ملے۔ میں کامک ریلیف کو سنجیدہ فلم/ڈرامے کا بھی ایک اہم جزو سمجھتا ہوں اور اپنے ڈراموں میں اس کا اہتمام کرتا ہے۔

باقی اگر آپ نے فلم دیکھی ہے تو بتائیں آپ لوگوں کو کیسی لگی۔ میری رائے حرفِ آخر ہر گز نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے