Baam-e-Jahan

گلگت بلتستان کے صحافی تشدد کے شکار کیوں؟؟؟


گلگت بلتستان میں موجود ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے دفتر سے موصول شدہ ریکارڈ کے مطابق گزشتہ 24 مہینوں کے اندر گلگت بلتستان میں تقریباً ایک درجن کے قریب صحافیوں کے ساتھ تشدد کے واقعات پیش آئے اور ان میں سے بعض صحافیوں کو حوالات میں بند کیا گیا اور بعض صحافی پولیس اور دیگر سرکاری و پرائیوٹ سیکٹر افراد کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنے

تحریر: کرن قاسم


گلگت بلتستان میں صحافیوں کے تحفظ کے لئے و معلومات تک رسائی حاصل کرنے کا کوئی قانون موجود نہیں جس کی وجہ سے صحافی اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دہی کے دوران تشدد کا نشانہ بنتے جا رہے ہیں سٹی ہسپتال کشروٹ گلگت  میں ڈاکٹرز کے مابین جھگڑے کی کوریج کرنا مہنگا پڑ گیا جب  وہاں پہ موجود سٹاف نے ہاتھ سے موبائل چھین کر دیوار سے مار دیا جس کی وجہ سے موبائل ٹوٹ گیا اور مجھے کوریج کرنے نہیں دیا گیا یہ الفاظ روزنامہ  باد شمال گلگت بلتستان سے وابستہ صحافی فرمان کریم بیگ کے تھے جو گزشتہ 12 سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔

فرمان کریم نے بتایا کہ جھگڑے کے دوران ہسپتال عملہ میرے اوپر حملہ آور ہوئے اور میرے ہاتھ سے موبائل چھین کر دیوار سے دے مارا اور گالم گلوچ پر اتر آئے جس پر سٹاف کے خلاف تھانہ ائیر پورٹ گلگت میں  ایف آئی آر درج کروایا گیا مگر معاملہ صلح صفائی کے بعد اس شرط پر ختم ہو گیا تھا کہ ہسپتال انتظامیہ ٹوٹ کر ناکارہ ہونے والا صحافی کا موبائل سیٹ  نیا خرید کر دیں گے مگر 8 ماہ کا عرصہ گزر گیا تا حال موبائل سیٹ نہیں ملا۔

گلگت بلتستان میں صحافی کے ساتھ اکثر ناروا واقعات پیش آتے رہتے ہیں عموماً دوران لائیو کوریج یا پھر اخبار میں خبر چھپنے کے بعد صحافی تشدد کا نشانہ بنتا ھے جس کے بعد جب معاملہ لے کر ہم تھانے چلے جاتے ہیں تو وہاں قبل از وقت درج رپورٹ صلح کے لئے آنے والے معزز شخصیات  قانونی کارروائی میں رکاوٹ بنتے ہیں یہاں خطے میں رائٹ ٹو انفارمیشن کا قانون نافذ نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں مجبوراً صلح کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ھے۔

گلگت بلتستان میں پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی میں صحافیوں کے ساتھ پیش آنے والا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ گلگت بلتستان میں صحافیوں کو ہمیشہ ان کے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی سے روکنے کی کوشش کی گئی صحافیوں پر تشدد کرکے آواز دبانے کی اب بھی ہر ممکن کوششیں جاری ہیں ۔

روزنامہ نوائے وقت کے ساتھ گزشتہ 31 سالوں سے وابستہ صحافی محمد اقبال عاصی نے بھی اسی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ  یہاں سچ لکھنا جرم بن جاتا ہے کئی بار ہم پر سچ لکھنے کے مختلف کیسز کئے گئے لیکن عدالت سے سر خرو ہوئے یہ سال 1996 کی بات ہے گلگت کا ایک شہری کسی جرم میں غذر پولیس کی حراست میں تھانے میں بند تھا جس کے حوالات کے اندر قتل ہونے کا واقعہ کی رپورٹ جب نوائے وقت میں چھپ گئی تو پولیس آفیسر نے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی اور خود کو بچانے کے لئے پولیس نے شائع شدہ رپورٹ کی تردید چھپوانے کے لئے مجھ پر سخت دباؤ ڈالتے رہے۔

 دی نیشن سے منسلک رپورٹر معراج عالم کے ساتھ بھی پولیس کے جانب سے تشدد کر کے تھانے میں بند کرنے کا واقعہ پیش آیا ۔ معراج عالم کسی خبر کی ویری فیکیشن کرنے جب کینٹ تھانہ ائیر پورٹ پہنچے اور ایس ایچ او سے واقعہ کی تفصیلات مانگی تو ایس ایچ او طیش میں آگئے اور بولے آپ کون ہوتے ہو جو ہم سے تفصیلات مانگتے ہو ہم کیا آپ کے ماتحت کام کرنے یہاں بیٹھے ہیں آپ جو کہے ہم مانیں بات تلخ کلامی سے نوبت مار پیٹ تک پہنچ گئی۔ معراج عالم پہ ایس ایچ او کی جانب سے تشدد پر صحافی برادری سراپا احتجاج بن گئے تھانے میں ایس ایچ او کے خلاف ایف آئی ار کی درخواست دی مگر کسی نے ایس ایچ او کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی جرات نہیں کی۔ گزشتہ 42 سالوں سے صحافت سے وابستہ جہانگیر ناجی کہتے ہیں کہ

بلکہ گلگت بلتستان میں صحافیوں کو ہمیشہ ان کے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی سے روکنے کی کوشش کی گئی صحافیوں پر تشدد کرکے آواز دبانے کی اب بھی ہر ممکن کوششیں جاری ہیں ۔

ایک سٹوری پر کام کرنے کے سلسلے جب میں 20 اپریل 2005 کو ضلع غذر کے ہیڈ کوارٹر گاہکوچ چلا گیا تو مجھے متعلقہ ادارے سے معلومات لینے ایک دن رکنا پڑا۔ اسی دوران رات کے وقت گاہکوچ پولیس نے مجھے 2 بجے ہوٹل روم سے اٹھا کر حوالات میں بند کرنے کے بعد صبح ہوتے ہی پولیس نے ضلع بدر کر دیا جبکہ میں نے ایس ایچ او گاہکوچ کو سب کچھ بتا چکا تھا کہ میں کسی سٹوری پر کام کرنے کے سلسلے گاہکوچ آیا ہوں لیکن میری ایک بھی نہیں سنی اسی طرح 2015 میں ایک سٹوری سکریٹری قانون کے حوالے سے اخبار میں چلائی جس پر میں اور میرا ایک ساتھی عبد الرحمان بخاری کے خلاف سٹی تھانہ گلگت میں ایف آئی آر درج ہوئی اور اخبار کے دفتر سے پولیس نے گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا اس جیسے سینکڑوں کیسز دیگر صحافیوں پر سے بھی گزر چکے ہیں یہاں جنگل کا قانون ہے اور اس جنگلی قانون میں ہم پھر بھی ڈٹ کر صحافتی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ گلگت بلتستان میں موجود ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے دفتر سے موصول شدہ ریکارڈ کے مطابق گزشتہ 24 مہینوں کے اندر گلگت بلتستان میں تقریباً ایک درجن کے قریب صحافیوں کے ساتھ تشدد کے واقعات پیش آئے اور ان میں سے بعض صحافیوں کو حوالات میں بند کیا گیا اور بعض صحافی پولیس اور دیگر سرکاری و پرائیوٹ سیکٹر افراد کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنے اس حوالے سے سنٹرل پریس کلب گلگت کے صدر خورشید احمد بتاتے ہیں کہ صحافیوں پر تشدد کے واقعات گلگت بلتستان میں رائٹ ٹو انفارمیشن کا قانون لاگو نہ ہونے کی وجہ سے پیش آرہے ہیں اگر صحافیوں کو ضرورت شدہ معلومات اداروں سے بغیر کسی رکاوٹ کے مل جائیں تو صحافیوں کے ساتھ اس طرح کے واقعات رونما نہیں ہوں گے کیونکہ صحافی نے ہر حال میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض باقاعدہ ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ انجام دینا ہوتا ہے یہاں تو ثبوتوں کے ساتھ سٹوری چلانے پر بھی صحافیوں کو دھمکیاں دی جاتی اور تشدد کیا جاتا ہے صحافیوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے گلگت بلتستان یونین آف جرنلسٹ  کے صدر خالد حسین کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں صحافی کے ساتھ اکثر ناروا واقعات پیش آتے رہتے ہیں عموماً دوران لائیو کوریج یا پھر اخبار میں خبر چھپنے کے بعد صحافی تشدد کا نشانہ بنتا ھے جس کے بعد جب معاملہ لے کر ہم تھانے چلے جاتے ہیں تو وہاں قبل از وقت درج رپورٹ صلح کے لئے آنے والے معزز شخصیات  قانونی کارروائی میں رکاوٹ بنتے ہیں یہاں خطے میں رائٹ ٹو انفارمیشن کا قانون نافذ نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں مجبوراً صلح کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں